تحریر: ایم سرور صدیقی
وہ ایک معروف ڈاکٹر کا ہسپتال تھا جس میں تمام جدید سہولتیں میسر تھیں میں یہاں دوسرے تیسرے ماہ ضرور آتا ہوں کہتے ہیں اس ڈاکٹر کے ہاتھ میں قدرت نے بہت شفا عطا کر رکھی ہے میں نے ڈاکٹر کی بھاری فیس ادا کر کے ٹوکن لے لیا اور استقبالیہ کے سامنے ایسی جگہ جا بیٹھا جہاں آنے جانے والوں کو بخوبی دیکھا جا سکتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کے آنے میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے اس کے باوجود اس کے کشادہ کلینک میں مریضوںکا تانتا بندھاہوا تھا سب انتظار میں تھے کچھ مریض اپنی جسمانی حالت کے پیشِ نظر بیزار بیزار بیٹھے تھے کچھ کے لواحقین اونگھ رہے تھے یہاں صبح آٹھ سے دس بجے تک پیشگی فیس کی ادائیگی پر ٹوکن ملتے جبکہ ڈاکٹرکا 12بجے تشریف لانا معمول تھا میں نے وقت گذاری کے لئے پاس پڑے ہوئے ایک میگزین کا مطالعہ شروع کردیاساڑھے نو بجے تک میں بیٹھا بیٹھا تھک گیا میری نظریں بار بار دروازے کی طرف اٹھ رہی تھیں میں مایوس اور بیزار سا ہونے لگا۔۔۔
اتنے میں ایک بوڑھی عورت پندرہ سولہ سالہ لڑکے کو لے کر استقبالیہ کائونٹرپرپہنچی اس کی آنکھوں میں امید کے دئیے روشن تھے۔۔ بوڑھی عورت نے ٹوکن لینے سے پہلے ڈاکٹرکی فیس دریافت کی۔۔۔بھاری فیس کا سن کر اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔۔ امید کے روشن دئیے بجھنے لگے اس کی آنکھوںمیں آنسو تیرنے لگے اس نے بیمار بیٹے کا دوبارہ ہاتھ تھاما اور واپس جانے کے لئے مڑی ۔۔لڑکے نے بوڑھی عورت سے کچھ دریافت کیا اس نے نرمی سے اس کے کان میں کچھ کہا لڑکے کا چہرہ بھی اتر گیا اس سے پہلے وہ دروازے تک پہنچتی میں تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھا انہیں روکا اور آہستہ آہستہ انہیں سا تھ لے کر قریبی کرسیوں پر براجمان ہوگیا اس سے لڑکے کی بیماری کے متعلق پوچھا۔۔۔ میں نے اپنا ٹوکن اورفیس کی رسید اس کو تھمادی پھر جیب سے ایک لفافہ نکالا جس میں کچھ رقم تھی میںنے بوڑھی عورت سے کہا ماں جی انکار نہ کرنا ایک بیٹے کی طرف سے قبول کرلیں اس کے چہرے پر تذبذب کے آثار تھے میں نے مسکراکر ان کی جانب دیکھا بوڑھی عورت نے زبان سے کچھ نہ کہا آنکھوں میں جھلملاتے دو آنسوئوں کے قطرے لفافے پر آ گرے پھر منہ آسمان کی جانب کرکے رب ِ کریم کا شکریہ ادا کرنے لگی۔۔۔
میں نے لڑکے کا گال تھپتھپایا اور ہسپتال سے باہر نکل گیا کیونکہ مجھے کوئی بیماری نہیں میں ہر ماہ کسی نہ کسی ہسپتال میں جاتاہوں اورفیس دیکر اپنا ٹوکن لیتاہوں اور کسی ضرورت مند کو دے کر گھر واپس آجاتاہوں یہ میرا بہترین مشغلہ ہے اس سے مجھے جتنی روحانی خوشی محسوس ہوتی ہے ان کو الفاظ میں بیان نہیںکیا جاسکتا اور یقین جانئے مجھے پورا مہینہ کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا پڑتا۔۔۔ اس نسخہ کو آپ بھی ازما سکتے ہیں۔۔۔رب ِ کائنات نے انسان کو ایک دوسرے کے دکھ درد میں شراکت کا بڑا اجردینے کا وعدہ کیا ہے پورا قرآن کریم انسانیت کی خدمت کی آیات سے بھرا پڑاہے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل اور ایک جان بچانے کو پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف قراردیاہے لیکن ہم دنیا دار پھر بھی نہیںسمجھتے ہمارا یہ رویہ سمجھ سے بالاہے پھل فروش، سبزی بیچنے والے اورکئی دکاندار سودا مناسب قیمت پر نہیں بیچتے اور دودن بعد جب وہ چیزیں گل سڑھ کر تعفن زدہ ہو جاتی ہیں تو انہیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتاہے یہ طرز ِ عمل اس بات کی نشان دہی کرتاہے کہ ہم کسی کا فائدہ کرناہی نہیں چاہتے ۔۔کسی غریب کو ریلیف دینے کا سوچنا بھی گراں گذرتا ہے۔۔۔
ہماری جمہوری حکومتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں تھر اور چولستان میں بارشوں کی کمی سے قریباًہرسال قحط سالی کاسامنا کرناپڑتاہے لیکن حکومت مستقل بنیادوںپر کوئی اقدامات نہیں کرتی گذشتہ سال متاثرین کے لئے دولاکھ پانی کی بوتلیں زائدالمعیاد ہوگئیں لیکن پانی کے قظرے قطرے کو ترستے عوام تک بروقت نہ پہنچائی گئیں سندھ کے غلہ گوداموں میں سینکڑوں ٹن گندم کو کیڑوںنے کھا لیا لیکن لقمے لقمے کو محتاج متاثرین کچھ نہ دیا گیا اور اخباری اطلاعات کے مطابق 1000بچوں سمیت ڈیڑھ دو ہزار افراد بھوک اور پیاس کی اذیت سے لقمہ ٔ اجل بن گئے اور صاحب ِ اقتدار کے سر سے جوں تک نہ رینگی مزے کی بات یہ ہے کہ اس سستی ،ہڈحرامی اور مجرمانہ غفلت کے مرتکب کسی ایک بھی فردکو سزا نہیں ملی۔۔۔۔ میں اکثر سوچتاہوں ہم پر اللہ کی رحمت کیوں نہیں ہوتی؟ ۔۔۔قدرتی آفات،پریشانیاں،ناگہانیاں، طرح طرح کی مصیبتیں اورمسائل نے ہمیں گھیررکھاہے دنیا بھر میں جگہ جگہ مسلمانوںکا خون بہایا جارہاہے۔۔۔ذلیل و خوارہونا معمول بن گیا ہے۔
کہیں بھی مسلم امہ کا کوئی پرسان ِ حال نہیں ۔۔آخر کیوں؟۔۔ یہ کیسی بے حسی ہے کسی کے پاس کھانے کے لئے روٹی نہیں اور کسی کے پاس کھانا کھانے کے لئے وقت نہیں۔۔ ۔۔ سوچ سوچ کر دماغ پھٹنے لگتاہے کہ آخریہ کیا ہورہاہے۔۔دل سے ہوک سی اٹھتی ہے جیسے اندر سے آواز آئی یہ ساری مصیبتوں،پریشانیوں اور مسائل کی بنیاد صرف ایک ہے۔۔۔ کہ ہمارے دلوں سے انسانیت ختم ہورہی ہے ۔۔۔انسان سے احترام کا رشتہ ٹوٹ رہاہے۔۔۔نفسا نفسی کو ہم نے اپنے آپ پر طاری کرلیاہے۔۔۔رب تو عالمین کارب ہے ہم بھول گئے کہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے ۔۔۔ہم نے فراموش کردیادوسروںکی مدد کرنا ہم پر واجب قراردیاگیاہے۔۔۔شایدیہ بھی یادنہیں رہا کہ اخوت ،مروت،بھائی چارہ ،ایثار،قربانی ہمارے مذہب میں بڑا اہم فریضہ اوریہ اسلاف کا ورثہ ہے۔۔۔ وہ جنہیں ہم کافر کہتے ہیں وہ انسانیت کے احترام میں ان کا قول ہے کہ ایک انسان کی جان بچانے کے وائٹ ہائوس بھی بیچنا پڑے تو بیچ دو۔۔ہم اس نبی ٔ معظم ۖ کے امتی ہیں جو سراپا رحمت ہیں جنہوںنے ہمیں قدم قدم پر انسانوںسے پیارکرنے کا حکم دیاہے۔۔ وہ نبی ۖ جس نے جانوروںسے بھی صلہ رحمی کی ہدایت کی ہے۔۔۔ اسلام جو سلامتی کا دین ہے امن کا درس دیتاہے نفرتیں ختم کرنے پر زور دیتاہے اور ہم ہیں کہ ہم نے اپنے آپ کو فرقہ واریت،دہشت گردی ،انتہاپسندی جیسے مسائل میں الجھاکررکھ لیاہے دلوں سے انسانیت رخصت ہونے لگی ہے اورمیراوجدان یہ کہتاہے کہ ہماری الجھنیں،پریشانیاں ، مسائل اور بحران اس وقت تک نہیں ٹل سکتے جب تک ہمارے دل انسانیت کی خدمت کیلئے کمربستہ نہیں ہو جائے۔۔۔پورے یقین اور دعوے سے کہا جا سکتاہے ہم انسانیت سے پیارکرنا شروع کردیں تو اللہ کی بے پایاں رحمتوںکا نزول شروع ہوجائے گا اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ الجھنیں کہا ںگئیں۔۔
مسائل کا کیا ہوا؟۔۔۔آفات،پریشانیاں،ناگہانیاں، مصیبتیں راحت میں بدل جائیں گی دل مانے تو میرے ساتھ مل کرعہد کریں ہم سے جس قدر ممکن ہوسکاہم دوسروںکا احساس کریں گے ۔۔ انسان سے محبت کی ترغیب دے کر معاشرہ سے نفرتیں ختم کرنے میں مددگار بنیں گے کسی بیمارکو دوا،۔۔کسی غریب طالبعلم کی فیس کسی کو کتابیں کسی کو یونیفارم کسی سفیدپوش کو راشن ،کسی مجبورکی مدد۔ کسی بیروزگار کوملازمت۔۔کسی۔ ضرورت مند۔ کی داد رسی کے لئے خودکو تیارکریں آپ کے گلی محلے شہر میں بہت سے ایسے لوگ آپ کی توجہ کے طالب ہیں۔کیا اس نیک کام میںآپ میرے ساتھی بنیں گے؟ مجھے آپ کے جواب کا نتظار رہے گا۔
تحریر: ایم سرور صدیقی