تحریر: ایم سرور صدیقی
اپنے ارد گردکا ماحول دیکھئے کسی سے کچھ کہنے یا سننے کی ضرورت نہیں صرف لوگوںکے رویہ پر ہی غورکافی ہے آپ دل سے محسوس کریں گے کہ ہم سب کے سب ایک ایسی بیماری میں مبتلاہوگئے ہیں جس کا نام” بے مروتی ”ہے جس کی بڑی نشانیوںمیں ایک دوسرے سے لاتعلقی، اپنی ذات سے پیار اور صرف اپنے متعلق سوچناہے دین ِ فطرت اسلام نے تو ہمسائیوںکے حقوق پر سب سے زیادہ زوردیاہے محلے میں طرفین کے چالیس چالیس گھروںکو ہمسایہ قراردیا گیاہے بلکہ اولیاء کرام نے تو یہاں تک کہہ ڈالا جس کا ہمسایہ رات بھوکا سو گیا اس پورے محلے کی عبادت قبول نہیں ہوگی ہمارے آس پاس ہو سکتاہے کسی گھر بھوک سے بلبلاتا بچہ سو گیاہو۔۔۔یا فاقوںسے تنگ خاندان اجتماعی خودکشی پر مجبورہو یا پھرکسی طالبعلم کے پاس امتحان کی فیس ہی نہ ہو اور دلبراشتہ ہوکر کچھ انتہائی اقدام بارے سوچ رہاہو ۔۔جب تک معاشرے میں ایک دوسرے سے روابط بہتر نہیں ہوں گے یہ مسائل برقرار رہیں گے نبیوں ولیوں اور ممتاز شخصیات کی ساری تعلیمات میں انسان سے محبت کرنے درس دیاگیاہے اس کے بغیرایک اچھے معاشرے کی تشکیل ممکن ہی نہیں گھریلوحالات، خوراک کی کمی ،بیماری میں بھی میڈیکل سٹور سے کوئی چھوٹی موٹی دوا لے کر وقت کو دھکا دینا معمول کی بات ہے جہاں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہاں جوان ہوتی بیٹیاں ،ہروقت ڈرے ڈرے سہمے سہمے بچے اورشادی کی آس میں بوڑھی ہوتی بہنیں ایک اذیت سے کم نہیں ہیں۔
عید، شب برأت کی آمد آمد پر خوشیاںلوگوںکے چہروں سے پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں لیکن غریبوں کے گھروںمیں ایک ماتم کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے بچے پہننے کونئے کپڑے اور خرچہ مانگتے ہیں لیکن ڈانٹ ،ڈپٹ،پھٹکار سننے کو ملتی ہے۔۔۔ ان لوگوںکی تعداد۔ سینکڑوں، ہزاروں نہیں کروڑوں میں ہے جو ساری زندگی دائرے میں سفر کرتے گذار دیتے ہیں اورغربت کو اپنی بدنصیبی سمجھ کراپنے حالات بدلنے کی بھی کوئی کوشش نہیں کرتے۔اگر ہم احساس کی دہلیز پر کھڑے ہوکر بغور جائزہ لیں تو ایسی کئی کہانیاں ہمارے اردگرد بکھری پڑی ہیں۔۔ایسے ایسے سفید پوش ہیں جن کے حالات کا ہمیں پتہ چلے تو کلیجہ منہ کو آنے لگے لیکن کریں کیا؟ ارباب ِ اختیارکو کچھ سوچنے کی فرصت ہی نہیںکتنے ہی اسحق ڈار روز واویلہ کررہے ہیں پاکستان میں غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہاہے ۔ اپوزیشن بھی سیاست چمکانے کیلئے غریبوں کی بات کرتی ہے حکمران ہیں کہ بلند و بانگ دعوئوںکو ہی اپنی کارکردگی سمجھنے لگے ہیں۔حکومت نے زکوٰة دینے کے نام پر غربیوںکو بھکاری بنا کررکھ دیا ہے۔
آج تک کسی حکومت نے بھی غربت ختم کرنے کیلئے حقیقی اقدامات نہیں کئے قرضہ سکیمیں بھی ان کے لئے ہیں جوباوسائل ہیں جن بے چاروںکو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہ گارنٹر کہاں سے لائیں یہ فلسفہ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا عام آدمی کے وسائل کم ہورہے ہیں،مہنگائی اوربیروزگاری بڑھنے سے لوگوںکا حشر نشرہوگیاہے۔۔۔کم وسائل جس اذیت۔جس کرب سے گذررہے ہیںوہ جانتے ہیں یا ان کا رب ہی جانتاہے۔۔۔اب کون سوچے بہتری کیسے ممکن ہے۔غربت کو بدنصیبی بننے سے کیسے روکا جائے اس کا یقینا حل بھی ہونا چاہیے پاکستان میں دردِدل رکھنے والے مخیر حضرات کی کوئی کمی نہیں سارا سال بالعموم اور ماہ ِ صیام میں بالخصوص آپ نے کئی گھروں، اداروں یا سماجی تنظیموں کے دفاتر کے آگے مفلوک الحال، غریب اور مستحقین کی لمبی لمبی قطاریں لگی دیکھی ہوں گی زکوٰة ،خیرات اور صدقات دینے کیلئے صاحب ِ ثروت اپنی استطاعت کیلئے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں اور انکے لواحقین کیلئے لنگر خانے اورغریبوں کیلئے دستر خوان کا رواج بھی فروغ پانے لگاہے۔
یہ سب اپنے رب کو راضی کرنے کا وسیلہ ہیں کہ اس کی مخلوق کی خدمت کی جائے لیکن یہ سب وقتی ہے اس کے دیرپا اثرات نہیں۔۔مخیر حضرات اور صاحب ِ ثروت سے اتنی گذارش ہے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ ہرسال کم ازکم ایک فرد کو روزگارکے وسائل مہیا کریں، کئی لوگ کام تو کررہے ہیں لیکن سرمائے کی کمی کے باعث ترقی نہیں کر پارہیشاید ہم میں سے بیشترنے کبھی تنہائی میں بھی نہیں سو چا ہوگا کہ احساس کیا ہے؟۔۔۔ احساس انسانیت کا سب سے بڑا رشتہ ہے ایک دوسرے سے کوئی خونی ناطہ نہ بھی ہونے کے باوجود یہ دلوںکو مضبوط بندھن میں باندھ دیتاہے۔۔اسی کی بنیادپر مخلوق ِ خدا فلاح پارہی ہے اسلام کے پانچ میں سے دو بنیادی ارکان زکوٰة۔ روزہ کا براہ ِ راست قلبی تعلق بھی احساس سے جڑاہواہے زکوٰة تومسلم معاشرے کے مستحقین کا حق ہے صدقات ،خیرات اور عطیات بھی احساس کی علامت ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ روزہ جیسی فرض عبادت کا مقصد بھی یہی ہے کہ امیر کبیر لوگ جن کو کبھی کسی عام آدمی سے کام نہیں پڑتا۔
فرعون صفت افسران جو عام آدمی کو سیدھے منہ بلانا بھی پسند نہیں کرتے۔وڈیرے، جاگیردار اور اسی نوعیت کے انسان جو سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے غریب جن کی نظر میں حقیر کیڑے مکوڑو ں جیسے ہیں وہ بھی بھوک اور پیاس کا ذائقہ چکھ لیں۔دل سے اس کا مفہوم جان لیں۔۔اس سے زیادہ اللہ اپنے بندوںکا کیا خیال کرے جس نے روزے کی صورت میں بادشاہ، وزیر، امیر، غریب، ادنی ٰ ،اعلیٰ سب پر بھوک اور پیاس فرض کردی۔یہ ہے احساس کے رشتے کی افادیت و اہمیت یعنی جس رشتہ کی بنیاد احساس پر نہیں وہ پائیدار نہیں ہوتا لیکن کتنی بڑی سچائی ہے رشتے کبھی بھی قدرتی موت نہیں مرتے اس کو انسان قتل کرتاہے نفرت سے۔۔۔غلط فہمی سے۔۔۔ دوسروں کو نظر انداز کرنے سے۔۔۔شاید اسی لئے سیف نے کہا تھا
میرے پاس سے گذرکر میرا حا ل تک نہ پوچھا
میں یہ کیسے مان جائوں وہ دور جاکرروئے
کس قدر حکمت ہے،دانش سے بھرپور فلسفہ اورکتنی عمدہ بات۔۔۔ انسانی رشتے خون کی بنیاد پرنہیں ہوتے احساس کی بنیادپرقائم ہوتے ہیں ہو سکتا ہے سگا بھائی اتنا دل کے قریب نہ ہو جتنا کوئی غیر احساس کرنے والا۔۔۔سوچتاہوں جس دل سے احساس ختم ہو جائے وہ تو ویران اور بیابان ہے ۔۔۔صحراسے بھی بدتر۔۔جس کے مقدرمیں تیز آندھیاں، بگولے اور جھکڑ ہیںسکون جس کے نصیب میں نہیں۔۔ماں باپ بہن، بھائی ، اولاد، دوست الغرض جس کو احساس کرنے والے مل جائیں دنیا اس کیلئے جنت نظیر ہے۔
تحریر: ایم سرور صدیقی