لاہور (ویب ڈیسک) آخر کار وہ پریس کانفرنس ہو ہی گئی جس کے سب منتظر تھے۔ شاید یہ ہی بم پھوڑنے کو رانا ثنا اللہ فیصل آباد سے نیلے سوٹ کیس میں مبینہ طور پر 15 کلو ہیروئن رکھ کے نکلے تھے۔ وہ بے چارے تو اپنی کرنیاں بھگت رہے ہیں، مگر جج صاحب کا ضمیر جاگ گیا ہے۔ نامور خاتون کالم نگار آمنہ مفتی بی بی سی کے لیے اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔مجھے بچپن سے انڈین اور پاکستانی اصلاحی فلمیں بہت پسند تھیں۔ ان فلموں میں ولن انجام سے پہلے اقرار گناہ کر لیتا تھا۔ اکثر اسے معاف کر دیا جاتا تھا، کبھی کبھار منھ کا مزہ بدلنے کو اسے کیفرِ کردار تک بھی پہنچا دیا جاتا تھا۔ وقت ذرا آگے کھسکا اور کالج میں پہنچ کے شیکسپیئر کو پڑھا تو معلوم ہوا کہ ضمیر صاحب کے جاگنے کا سلسلہ ایلزبیتھین تھیئٹر کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ میکبتھ اپنے مربی بادشاہ کو قتل کر کے ضمیر کی ملامت کا شکار ہوتا ہے۔ لیڈی میکبتھ کا وہ مکالمہ کسے یاد نہیں ہو گا کہ ’آل دا پرفیومز آف عریبیا کین ناٹ سویٹن دس لٹل ہینڈ۔‘ اب بات یہ ہے کہ ’وہ‘ جنھوں نے جج صاحب کو چائے پہ بلایا تھا، ان کا نام سرگوشی میں سب ہی لینے لگے ہیں اور یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ریاست کے چاروں ستونوں سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اس پریس کانفرنس سے آزاد عدلیہ کا بت (کیا اس نام کی کوئی شے کبھی پاکستان میں موجود بھی تھی؟) پاش پاش ہو گیا۔ عوام کا اعتماد تو پہلے ہی اداروں سے اٹھ چکا تھا، کوئی خوش فہمی تھی تو اب رفع ہو گئی۔ مریم نواز کی یہ پریس کانفرنس ایسے وقت میں آئی ہے جب بجٹ پر عوام میں شدید بے چینی پائی جا رہی ہے۔ اپوزیشن کے بڑے لیڈر گرفتار ہیں۔ معیشت منھ کے بل پڑی ہے اور بارشوں کے نتیجے میں سیلاب آنے والا ہے ۔ ایسے وقت میں ہر شخص کو اپنی پڑی ہے۔ مہنگائی کے باعث متوسط طبقہ ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لیے پریشان ہے۔ نہ تو وہ ملازمتیں ملیں جن کا ذکر کیا گیا تھا اور نہ ہی وہ گھر جن کے خواب دکھائے گئے تھے۔نواز شریف جیل میں ہے۔ اس بات سے ایک بھوکے کو روٹی نہیں مل سکتی۔ ایک بے روزگار کو روزگار نہیں مل سکتا۔ لوگ تبدیلی سرکار سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔یہ وقت حزب مخالف کے لیے بڑا قیمتی ہوتا ہے۔عوامی جذبات کے سیلاب کا رخ دیکھ کے اگر حزبِ اختلاف ان کی رہنمائی کرے اور ان کی سچی ترجمانی کرے تو حکومت کے لیے واقعی مشکل کھڑی ہو سکتی ہے۔بات یہ ہے کہ اس پریس کانفرنس میں جن کا نام اشاروں کنایوں میں لیا گیا وہ بہت برے ہیں، یہ تو سب جانتے ہیں۔لیکن اس وقت عوام کو نہ جج صاحب کے ضمیر کے جاگنے سے غرض ہے اور نہ اس چیز سے کہ جو جج آج بھی عجیب سی کیفیت میں اعتراف کر رہا ہے اور جس کی دس سال پرانی ویڈیو اسے خود کشی پہ مجبور کر سکتی ہے وہ کس حد تک قابل اعتبار ہے؟ نہ ہی کسی کو ’وہ‘ کے بارے میں کوئی خوش فہمی ہے۔سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ مسائل عوام کے نہیں ہیں۔یہ ویڈیو کم سے کم مجھے حیران نہیں کر سکی۔ تمام پاکستانیوں کو کافی حد تک اندازہ ہے کہ ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ایک طبقہ تو یہاں تک کہتا ہے کہ مارشل لا لگا کر ترقی ہوتی ہے تو بھلے مارشل لا لگا دیں، ہم سیاستدانوں اور ’ان‘ کی لڑائی سے تنگ آ چکے ہیں۔عوام کو بجلی ،گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی چاہیئے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ مریم نواز شریف اس نیوز کانفرنس کے آخر میں کوئی ایسا لائحہ عمل بھی بتا دیتیں جس پہ عمل کر کے ہم بھی کسی کنارے لگتے۔کوئی ویڈیو ایسی بھی برآمد کرتیں جو یہ بتاتی کہ 73 برسوں سے ’ان‘ کی اور سیاستدانوں کی اس آنکھ مچولی میں پستے عوام کیا کہہ رہے ہیں۔نواز شریف بے قصور ہے، جج دباؤ میں تھا۔ ہم یہ مان لیں گے مگر ہم بھی تو بے قصور ہیں۔ہمارا مقدمہ کون لڑے گا؟ نواز شریف کے حامی اور ان کے مخالف، ہر دو طرح کے خیالات کے حامی یکساں پس رہے ہیں، ان کی بات کون کرے گا؟ کاش بلاول اور مریم کو کوئی ایسی ویڈیو بھی مل جائے جو 73 سال سے قید بامشقت جھیلتی اس قوم کو بھی باعزت بری کرا سکے۔