counter easy hit

خاتون صحافی مہر بخاری نے مریم نواز کے دل و دماغ میں چلنے والے خیالات قوم کے سامنے رکھ دیے

Female journalist Seal Bukhari placed Mary Nawaz's thoughts in front of the nation

لاہور (ویب ڈیسک) یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ آزادی اور سیاسی بقا اس سے وابستہ ہے۔ یہ بیانیے کا مسئلہ ہے۔ کھیل مکروہ اور خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ نہ کوئی توقف ہے نہ پابندی۔ کھونے کے لئے کچھ نہیں بچا۔ اب تو ہر چیز خطرے میں ہے۔ مریم نواز پھر سے مرکز نگاہ نامور خاتون صحافی مہر بخاری اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔بن گئی ہیں۔ مگر اس مرتبہ وہ زیادہ کھل کر اور واشگاف انداز میں سامنے آئی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ اب وقت بہت کم ہے، اس سے پہلے کہ سب کچھ لٹ جائے وہ اپنے والد کو بہرصورت رہا کرانا چاہتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی طرح وہ بھی حکومت کو گرانا چاہتی ہیں، انجام کار اپنے والد کو ایک سیاسی قیدی ڈکلیئر کرانے کی خواہشمند ہیں۔ خاموشی ان کے کسی کام نہ آئی، یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ تھی۔ ان کے لئے کوئی ریلیف یا گنجائش نہ تھی، ضمانت میں توسیع ہوئی نہ والد کو بیرون ملک علاج کے لئے جانے کی اجازت ملی۔ پارٹی بھی خواب گم گشتہ بنتی جا رہی تھی۔ چچا کی مصالحت کی پالیسی بھی باپ بیٹی کے کام نہ آئی، الٹا وہ خود کو اپنی فیملی کو بچانے کے قابل بھی نہ رہے۔ اب معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر فرنٹ فٹ پر آ کر کھیلنے کا وقت آ گیا تھا۔ وہ اب بی بی نہیں، بی بی پلس ہیں اور تمام سرخ لائنوں کا از سر نو تعین کر رہی ہیں۔ جج صاحب اپنے بیان حلفی میں کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے کس طرح ان کی ذاتی زندگی کی ویڈیو دکھا کر بلیک میل کیا گیا۔ میرے ذرائع‘ جو اس سارے کھیل کے واقفانِ حال میں سے ہیں‘ ایک الگ ہی کہانی سناتے ہیں۔ بد قسمتی سے یہ غیر اخلاقی طرز عمل اور بد ترین عیاشی پر مبنی ایک زبردست تھرلر ہے، جو دھوکے اور بلیک میلنگ کے ذریعے پانچ کروڑ روپے میں اپنے انجام کو پہنچا۔ ماضی کی غلام گردشوں میں دفن چند سیاسی اور غیر سیاسی حقائق ایک بار پھر سر اٹھا چکے ہیں۔ مصدقہ ذرائع بتا رہے ہیں کہ ایسی کوئی ویڈیو کسی حساس ادارے کے پاس نہیں۔ صرف اور صرف ن لیگ کے اراکین کے پاس ہے۔ اور وہ سینے پر ہاتھ مار کر جج صاحب کی نجی زندگی کی ویڈیو کی موجودگی اور صداقت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ مریم صاحبہ نے پریس کانفرنس میں… ویڈیو کے سیاق و سباق کا… چھپے الفاظ میں ذکر کیا… کسی کی ذاتی زندگی پر کیچڑ نہ اچھالنے کا ذکر کرتے ہوئے… آگے بڑھ گئیں… ہو بہو مصدقہ ذرائع کے الفاظ میں اطلاع یہ ہے… ماہ رمضان سے قبل… ایک اہم بیٹھک ہوئی… پیپلز پارٹی کے دو سینئر رہنما اور مسلم لیگ کے یوتھ ونگ سے منسلک ایک رہنما، شریک تھے۔ یہ میٹنگ ایک جج کی نجی زندگی سے وابستہ اسی ویڈیو سے متعلق تھی جس کو دکھا کر جج صاحب کو مبینہ طور پہ بلیک میل کیا گیا۔ چونکہ اس ویڈیو کا ممکنہ بینفشری، شریف خاندان ہو سکتا تھا‘ سو ویڈیو کی قیمت بھی اونچی لگائی گئی جو کم و بیش پچاس کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ اس ویڈیو کی اہمیت اور قیمت دکھانے والے نے اتنی زیادہ بتائی کہ میٹنگ میں موجود پیپلز پارٹی کے رہنما نے اپنی سہولت کاری کے بدلے میں اپنا حصہ ملنے کی توقع کا اظہار بھی کیا۔ جج کی پرائیویٹ زندگی کی مذکورہ ویڈیو ان کے دوستوں کی نجی محفل میں بنائی گئی تھی۔ ان میں سے ایک دوست کی دوستی کا دائرہ چونکہ پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما تک وسیع تھا… سو معاملہ اس میٹنگ تک پہنچا۔ کچھ دیر کے وقفے سے اس گیم چینجر ویڈیو کی خبر مریم نواز کو موصول ہوئی۔ یہ ویڈیو کسی جج کے کردار اور اس کے کیے گئے فیصلوں کو زمین برد کرنے کے لیے کافی تھی۔اخلاق باختہ ویڈیو ایک جج تو کیا کسی بھی شخص کا کیریئر تباہ کرنے‘ اس کی ذاتی زندگی اور شہرت کا جنازہ نکالنے کے لئے دور رس نتائج کی حامل تھی۔اس ویڈیو سے متعلق میاں صاحب کو کوٹ لکھپت جیل میں جا کر آگاہ کیا گیا… اور ویڈیو حاصل کرنے والے اس متوالے سے بھِی متعارف کروایا گیا۔ میاں صاحب نے فی الفور ویڈیو کی وصولی کا حکم جاری کیا۔ مبینہ طور پر ویڈیو کی قیمت پانچ کروڑ کے لگ بھگ طے ہوئی۔ اس تمام معاملے کو فول پروف بنانے کے لیے تمام انتظامات مکمل کیے گئے۔ اسی ملتان میں فلمائی گئی ویڈیو کا تذکرہ جج صاحب اپنے بیانِ حلفی میں کر رہے ہیں۔یہاں مسئلہ کسی فرد کی ذاتی زندگی کا نہیں بلکہ دور رس اور اہم نتائج کا ہے۔ جب ججوں کے اس طرح کے تباہ کن ویڈیوز قومی مکالمے پر چھا جائیں تو پھر یہ ریاستی ڈھانچے‘ مشینری‘ اس کی ورکنگ اور احتساب کا ایشو بن جاتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جج ارشد ملک صاحب کی وضاحت نے کوئی جواب دینے کے بجائے مزید سوالات کو جنم دے دیا ہے۔ انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ انہیں مسلم لیگ کے نمائندوں کی طرف سے بار بار رشوت کی پیش کش کی گئی‘ اور تعاون نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں‘‘۔ ان کا بیان حلفی… ایک کریمنل رپورٹ سے کم نہیں پھر بھی وہ ایف آئی آر رجسٹرڈ کرانے سے قاصر رہے۔ نہ ہی ان کے پاس کوئی گواہان ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے سپریم کورٹ کے مانیٹرنگ جج جسٹس اعجازالحسن کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا؟ انہوں نے اپنے انتظامی سربراہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا؟ جج ارشد ملک کے جوابی الزامات کہ انہیں رشوت کی پیشکش کی گئی اور خطرناک دھمکیاں دی گئیں‘ تفتیش کا تقاضا کرتے ہیں۔ بالخصوص جب یہ دبائو اور دھمکیاں دوران ٹرائل ان کو دی جا رہی تھیں۔اور بھی پریشان کن بات یہ ہے کہ مذکورہ جج صاحب کہتے ہیں کہ قتل کے الزامات والا شخص ان کا پرانا جاننے والا ہے۔ جو شخص گزشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے پاکستان میں رہتا ہی نہیں ہے‘ سعودی عرب اور دبئی میں ہونے والی حالیہ ملاقاتوں سے ہٹ کر ان کی شناسائی کتنی پرانی ہے؟ اعلیٰ عدلیہ کی طرح ضلعی عدلیہ میں بھی کم سے کم سماجی روابط اور تعلقات سمیت ایک کوڈ آف کنڈکٹ کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔پارٹی کے ہائی پروفائل اور بدنام وفادار کے ساتھ میل ملاپ اور نواز شریف کے مقدمے کی سماعت کے دوران ایک شخص کی عدالت میں کئی مواقع پر موجودگی ایسا سوال ہے جس کی جج صاحب خود ہی بہتر وضاحت کر سکتے ہیں۔ زیادہ حیران کن بات جج صاحب کا یہ مطالبہ ہے کہ اس میں ملوث افراد کے خلاف لیگل ایکشن لیا جائے۔ لیگل ایکشن کون لے گا؟ متاثرہ فریق تو جج صاحب خود ہیں اور وہی ہتک عزت کا کیس دائر کر سکتے ہیں۔ جج صاحب کو بہت سی وضاحتیں کرنا ہیں۔ لگتا ہے کہ انہوں نے جس کوڈ آف کنڈکٹ کی پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے‘ اس کی حدود سے متجاوز کیا ہے۔ رولز کی حدود کے بارے میں ایک ابہام پایا جاتا ہے اور ان کی وضاحت نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ جس ویڈیو کے ذریعے جج صاحب کو بلیک میل کیا جا رہا ہے‘ وہ کسی جج کے شایان شان نہیں ہے؟ اس بات سے بخوبی باخبر رہنا چاہئے کہ کب‘ کہاں‘ کیسے اور کون کون آپ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟اب احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی طرف سے کیے جانے والا ٹرائل کئی شکوک کو جنم دے رہا ہے۔ اگر یہ شبہات برقرار رہے تو میاں صاحب کا مقدمہ بشمول ایون فیلڈ کے دوبارہ سنا جائے۔ یعنی ری ٹرائل ہو گا۔ جج صاحب اپنے عہدے سے ہٹائے جا چکے ہیں۔ بصورت دیگر اگر یہ ویڈیو فرانزک معیار پر پورا نہیں اترتی تو مسلم لیگ ن کی اس تمام اعلیٰ قیادت کو نتائج بھگتنا پڑیں گے جو مریم نواز کی پریس کانفرنس میں براجمان تھی۔ ذرائع بتاتے ہیں… اور پی ایم ایل کے سینئر رہنما بھی ہماری خبر کی تصدیق کرتے ہیں کہ… اس ویڈیو اور پریس کانفرنس کے سیاق و سباق کے متعلق انہیں بہت سرسری سا آگاہ کیا گیا۔ تذبذب کی ایک کیفیت میں تمام رہنما دوران کانفرنس بس سر ہلاتے رہے۔ چونکہ بقول مریم نواز یہ میاں صاحب کا حکم تھا‘ سو ادھوری معلومات کے ساتھ تمام رہنما اس پریس کانفرنس کا حصہ رہے۔ نیب چیئرمین کے بعد احتساب عدالت کے جج کو جس طرح اس تنازع میں الجھا دیا گیا ہے یہ کوئی چھوٹا معاملہ نہیں ہے۔ اداروں کی زیادتیوں‘ فائو ل پلے اور جبر سے لبریز ماضی کی وجہ سے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن فرانزک آڈٹ سمیت اس کی پوری تحقیقات کرے۔ یہ اب افراد یا پارٹیوں کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو ہماری ریاست کی بنیادوں کے لئے ایک سنگین خطرہ بن گئی ہے۔ ایک دیانت دار عدلیہ‘ منصفانہ ٹرائلز اور قانون کے منصفانہ اطلاق کا نظریہ ایک بار پھر خطرے سے دوچار نظر آتا ہے۔ عدلیہ کی آزادی پر ایک بار پھر سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ عام آدمی پہلے ہی اس سسٹم کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہے اور اپوزیشن کی وجہ سے آج کل یہاں ”انصاف برائے فروخت‘‘جبر‘ بلیک میلنگ اور سنسر جیسی باتوں کو اور بھی تقویت مل رہی ہے۔میثاق جمہوریت کی روشنی میں نظام کی درستی‘ جمہوریت کے تسلسل اور عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ کی بحالی جیسے فوائد کو زیادہ بے دردی سے ضائع کیا جا رہا ہے۔ جمہوریت کی عملداری کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی ہو اور ارباب اقتدار کے اعمال اور رویے قانون اور حدود کے تابع ہونے چاہئیں۔ہمیں ایک دیانت داری سے تہی نظام عدل‘ اپنے مفادات کے تحفظ اور تسلسل پر تلی سیاسی اشرافیہ سے خطرہ ہے۔ جب ہم اپنے سسٹم کو اس حد تک تباہ و برباد کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو بچانے سے قاصر ہو جائے تو وقت آ گیا ہے کہ ہم تھوڑا توقف کرکے سوچیں کہ کیا ہم اپنے آپ کو ہی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website