تحریر : محمد ریاض پرنس
ہمارے ملک کے بیشترشہروں اور دیہاتوں میں ابھی بھی لڑکی کی شادی کم عمرمیں کر دی جاتی ۔ ابھی اس کے کھیلنے کودنے کے دن ہوتے ہیں مگر والدین شادی کر کے اس کے کندھوں پر بہت ساری ذمہ داری سونپ دیتے ہیں ۔ جس کا اس نے کبھی سوچابھی نہیں ہوتا۔ابھی تو وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گوڈی گڈے کی شادی میں مصروف ہوتی ہے اور اس کی شادی کر دی جاتی ہے ۔ اور نہ ہی وہ اس سے واقف ہوتی ہے ۔ ابھی وہ اپنے بچپن کے دنوں میں ہی ہوتی ہے کہ اس کی شادی کر کے والدین اپنا فرض تو ادا کر دیتے ہیں مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ آگے اس کے ساتھ کیا بیتنے والا ہے ۔ گھر کو چلانا اس کے بس کی بات کب ہوتی ۔ابھی تو اس کو پتہ ہی نہیں کہ کھانا کیسے پکاتے ہیں ۔گھر کو کیسے سنبھالتے ہیں اور گھر کو چلانے کی کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں ۔اپنے خاوند کے لیے کیا کرنا ہے اس کا خیال کیسے رکھنا ہے ۔ ابھی تو وہ اپنا خیال نہیں رکھ سکتی ۔اور یہ سب کچھ کیسے کر پائے گی ۔
والدین یہ سوچتے ہیں کہ فرض ادا ہو جائے اور ان کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے تو یہ ان کی غلط سوچ ہے ۔ان کو خیال کرنا چاہء کہ ابھی شادی کی ہے اس کے بعد بچے بھی پیدا ہو نے ہیں ۔کیا اس کی عمر ہے کہ وہ یہ سب کچھ سنبھال سکے گی ۔بچوں کی رکھوالی اور ان کی پرورش اچھے طریقہ سے کر سکے گی ان تما م چیزوں کو سوچ کر والدین کو ایسا قدم اٹھانا چاہئے ان کو پتہ ہونا چاہئے کہ کم عمری کی شادی کے کیا مسائل ہیں ۔ اگر خاوند کی عمر زیادہ ہے تو پھر بھی بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں ۔ اس لئے بہت ضروری ہے اس وقت تک شادی نہیں کرنی چاہئے جب تک لڑکی گھر کو سنبھالنے کے لئے تیار نہ ہو جائے ۔ جب محسوس ہو کے اب وہ سارے گھر کا کام وغیرہ کر سکتی ہے اور اچھے طریقے سے گھر چلا سکتی تب جا کر اس فرض کو ادا کرنا چاہئے ۔والدین یہ سوچ کر جلدی شادی کر دیتے ہیں کہ اگر زیادہ عمر ہو گئی تو شادی کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اس لئے وہ اپنی ننھی سی جان کو بہت جلد ہی اس میں جلنے کے لئے پھینک دیتے ہیں ۔ ان کو کیا پتہ کہ سسرال میں اس کو کس کس سے واسطہ پڑے گا۔
کم عمری کی شادی سے ہمارا معاشرہ مسائل سے بھرا پڑ ا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ کم عمر میں شادی تو کر دیتے ہیں ۔ مگر جو اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کو سامنہ کرنے کے لئے بہت کچھ برداشت کر نا پڑتا ہے ۔ چھوٹی چھوتی باتوں پر رسوا ئی اور ناراضگی ہوتی ہیں مگر ان کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے دونوں گھروں میں مسائل اس قدر بڑھ جاتے ہیںکہ دو خوشی سے بسنے والے گھروں میں مسائل جنم لیتے ہیںان میں اس قدر اضافہ ہو جاتاہے کہ گھر کا سکون تو تباہ ہوتا ہی ہے ۔ دو گھروں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رسوائی اور جدائی بڑھ جاتی ہے ۔اور وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے عدالتوں کا رخ کر لیتے جس سے ساری عمر عدالتوں کے انصاف ملنے میں گزر جاتی ہے ۔ ہمار ا عدالتی نظام اس قدر سست ہے کہ فوری انصاف کی طلب کرنا بھی بیوقوفی ہے ۔
کچھ مسائل تو اس قدر کے ہوتے ہیں کہ جب شادی ہوتی ہے تو لڑکی کی مرضی کے خلاف سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے ۔ والدین یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ بس شادی ہو جائے جیسے بھی مگر اس کے بعد کیا ہونا ہے سب دیکھ لیں گے۔ مگر یہ سب کچھ غلط ہے ہمارا قانون اور ہمارا اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارے دین میں بھی اس کی ممانت کی گئی ہے۔ شادی لڑکی کی اجازت لے کر کرنی چاہئے تاکہ مسائل جنم نہ لیں ۔اور ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ ہم اس کو اپنی آناہ کا سوال بنا لیتے ہیں ۔ والدین کو اس چیز کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ ان کو پتہ ہونا چاہئے کہ جس کے ساتھ ہم اپنی بیٹی کی شادی کر رہے ہیں کیا وہ اس کو خوش رکھ پائے گا ۔ کیا وہ سب کچھ اس کو دے پائے گا جس کی اس کو ضرورت ہے ۔یہ تمام چیزیں والدین کو پتہ ہونی چاہئیں ۔تاکہ دوگھروں میں خوشیاں آ سکیں ۔ ڈراڑیں پیدا نہ ہوں ۔
ہر روز ہم کو اس طرح کے مسائل کا سامنہ کرنا پڑتا ۔ اس کی یہی وجہ ہوتی ہے یا تو پھر شادی کم عمری میں کر دی جاتی ۔جس وہ اپنے خاوند اور اس کے گھر والوںکو خوش نہیں رکھ سکتی ۔ اس لئے اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس گھر سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ یاپھر شادی لڑکے کی مرضی سے نہیں ہوئی اس لئے لڑکا اپنی بیوی کو خوش نہیں رکھ سکتا اس لئے وہ اس کو اس قدر پریشان کرتا ہے کہ وہ گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہے جس سے دو گھروں کا سکون تباہ ہو جاتا ہے۔اور ان کی سزا ساری عمر دونوں خاندانوں کے لوگوں کو ملتی رہتی ہیں ۔ ساری عمر اس خاندان میں کسی کا رشتہ نہیں ہوتا اور نہ وہ ایک دوسرے کی کسی خوشی اور غمی میں شریک ہوتے ہیں۔اور کچھ وجوہات اس طرح کی ہوتی ہیں کہ لڑکی کے والدین سے جو جہیز مانگا تھا وہ مل نہیں سکا جس کاطانحہ ساری عمر لڑکی کو سننے کو ملتا ہے ۔اور انہی باتوں پر لڑائی جھگڑے رونما ہوتے ہیں اور پھر دونوں بات طلاق پر جا پہنچتی ہے ۔ شادی کی عمر کم ازکم 16سالہ ہے اس سے پہلے شادی نہیں کرنی چاہئے اگر اس کا خیال نہیں رکھیں گے تو پھر نتائج ہم کو ہی بھگتنا پڑیں گے ۔شادی سے پہلے لڑکی اور لڑکے کی مرضی بہت ضروری ہے اور اس کی پسند اور نا پسند کا بھی خیال رکھا جائے ۔
اس کی دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے شادی لڑکی کی مرضی سے نہیں ہوتی ۔اور اس سے زائد عمر آدمی سے کر دی جاتی ہے جس سے وہ اس کی ضرورتوں کو کو پور ا نہیں کرپاتی ۔جس سے ان کے درمیان تعلقات خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ اور اس قدر خراب ہو جاتے ہیںکہ وہ اب مل کر گھر نہیںبسا سکتے ۔اور اخرکار بات طلاق پر ختم ہوتی ہے۔ ان تمام مسائل میں وہ بچے در در کی ٹھوکریں خانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو ان مسائل میں جنم لیتے ہیں ۔ ان معصوم بچوں کا آخر کیا قصور ہے ۔ ان کا مستقبل تباہ ہو جاتا ہے اوروہ سوتیلی ماں اور سوتیلے باپ کی ساری عمر سزا سہتے سہتے بسر کر دیتے ہیں۔میرا سوال ان والدین سے ہے جو ایسا کر تے ہیں ۔آخر وہ ایسا کر کے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ خدارا ایسا مت کریں ۔تاکہ معاشرتی مسائل نہ بڑھ سکیں ۔اور آپ کے گھروں میں خوشیاں آئیں۔ اور سوچیں ان بچوںکی خوشی کے لئے جن کو حاصل کرنے کے لئے آپ نے کسی در کو نہیں چھوڑاہوتا۔
تحریر : محمد ریاض پرنس