تحریر : سندس قمر
اسلام سے پہلے دنیا نے جس قدر ترقی کی تھی ،اس میں صرف ایک صنف (مرد) اخلاقی اور دماغی قوتوں کا کرشمہ تھی، پھر جب اسلام آیا تو اس نے دو صنفوں (مر د وعورت) کی جد وجہد کو وسائلِ ترقی میں شامل کرلیا ،اس لیے جب اس کے باغ تمدن میں بہار آئی تو ایک نیارنگ وبو پیداہوگیا۔ عورت کو دنیا نے جس نگاہ سے دیکھا وہ مختلف ممالک میں مختلف رہی ہے، مشرق میں عورت مرد کے دامنِ تقدس کا داغ ہے، روما اس کو گھر کا اثاثہ سمجھتاہے، یونان اس کو شیطان کہتا ہے ،کلیسا اس کو باغ انسانیت کا کانٹا تصور کرتاہے؛ لیکن اسلام کانقطہ نظر ان سب سے جداگانہ ہے ،وہاں عورت نسیم اخلاق کی نکہت اور چہرہ انسانیت کا نور سمجھی جاتی ہے۔ حضرت عمر کا قول ہے کہ ”مکہ میں ہم لوگ عورتوں کو بالکل ہیچ سمجھتے تھے ”۔لیکن اسلام نے عورتوں کے چند حقوق متعین کردیے اوران کو مردوں کے مساوی درجہ دیا، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ اسلام نے عورتوں کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر بٹھادیا ، اور دنیا کو یہ عظیم الشان درس دیا کہ یہ کوئی دوسری مخلوق نہیں بلکہ یہ تمہارے برابر کی شریک ہے، اس کے بھی وہی حقوق ہیں جو تمھارے ہیں۔
دور ِ حاضر میں عورتوں کے حقوق ،ان کے ساتھ عدل وانصاف اور ان کی علمی، اخلاقی، سیاسی اورسماجی آزادی کابگل بجایاجارہا ہے، اسمبلیوں ، پارلیمنٹوں اور دیگر تنظیموں میں عورتوں کے حقوق اور ان کی آزادی کے لیے ہر روز نئی نئی قراردادیں مرتب کی جارہی ہیں، اخبار ات ومجلات، ٹیلی ویڑن ، انٹرنیٹ کے ذریعہ عورتوں کے حقوق اور ان کی آزادی کے لیے عوام الناس کے اذہان ہموار کیے جارہے ہیں،ساتھ ہی ان کا یہ بھی نعرہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کے تمام حقوق چھین لیے، اس کو ایک کوٹھری کا قیدی بنادیا ، اس کی ہر طرح کی آزادی چھین کر اس کو بے دست وپا بنادیا؛لیکن کیا حقیقت ہے اور کیا اسلام اتنا ظالم مذہب ہے کہ اس نے عورتوںکے تمام حقوق چھین لیے ، جب گہرائی سے اس حقیقت کا جائزہ لیا جاتا ہے تو بادی النظر میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ آزادی نسواں کا نعرہ اور اسلام پر طرح طرح کی کیچڑ اچھالنا درحقیقت اسلام دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور یہ نعرہ اسلام مخالف عناصر کی طرف سے لگایا جاتا ہے۔ اس میں کچھ ماڈرن قسم کے مسلمان بھی شامل ہیں ، جو مغربی تہذیب وثقافت سے جنون کی حد تک پیار کرتے ہیں۔لیکن جو اسلامی اقدار اور قوانین سے واقف ہوگا۔
وہ دعویٰ کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جوحقوق دیے ہیں اس کا عشر عشیر بھی کسی مذہب یا تنظیم نے عورتوں کو نہیں دیا۔آزادی نسواں کا یہ نعرہ اگر اخلاص پر مبنی ہوتا اور اس میں کسی طرح کا لالچ یا نفسانی خواہش شامل نہ ہوتی اور یہ چیز عین اسلامی قوانین کے موافق ہوتی تو یقیناً یہ نعرہ عورتوں کے لیے باران رحمت ثابت ہوتا ؛لیکن اس دعویٰ میں کتنی صداقت ہے اور اس کے پس پردہ کون سے مقاصد مضمر ہیں؟ جب اس کی تحقیق کی جاتی ہے تو یہ حقیقت نصف النہار کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ عورتوں کے حقوق کے نام پر آزادی نسواں کایہ نعرہ اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہے ، ساتھ ہی ان کا یہ بھی مقصد ہوتاہے کہ اگر ہماری عورتیں بھی اپنی روزی روٹی کا خود ہی انتظام کریں تو ہم پر معاشی بوجھ کم ہوجائے گا۔وہ یہ چاہتے ہیں کہ عورتیں اسلامی پردہ سے باہر نکل کر زندگی کے ہر موڑ میں ہمارے دوش بدوش چلیں تاکہ ان کی رفاقت میںآفسوں، پارکوں، ہوٹلوںاور تفریح گاہوں میںان سے ہماری جنسی خواہشات کی تکمیل کا سامان فراہم ہوتا رہے اور ہم قدرت کی اس حسین مخلوق کے نظارہ سے لطف اندوزبھی ہوتے رہیں۔
موجودہ دور کی ماڈرن ذہنیت کی عورتیں آزادی نسواں کے اس نعرے کو اپنے لیے باران رحمت تصور کرتی ہیںاور اسلام مخالف دشمنوں کے اس پر فریب نعرے کے تلے آنا اپنے لیے باعث فخر تصور کرتی ہیں، ان کی آواز میں آواز ملا کر ان کی تائید ونصرت کرکے اپنے ہاتھو ں سے اپنے لیے ہلاکت کے گڑھے کھود رہی ہیں۔ حالانکہ اسلام نے انسداد فواحش کے لیے انھیں پردہ کا نظام پیش کیا تھا؛ لیکن آج اس پردہ کو وہ اپنے لیے قید وبند کی کوٹھری تصور کرتی ہیں،جب کہ یہ سوچ قطعاً غیر اسلامی ہے، اسلامی اقدار وروایات میں بے پردگی کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اے پیغمبر ! اپنی بیویوں، صاحبزادیوں اور دوسرے مسلمان کی عورتوں سے بھی کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر (سر سے) نیچے چادریں ڈال لیا کریں۔(سورہ احزاب: 59)۔اسلام نے عورتوں کو پردہ کی عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا ہے اور یہ بات دعویٰ کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ پردہ کے بغیر نہ عورت کی عفت کی ضمانت دی جاسکتی ہے اور نہ اس کے دیگر حقوق محفوظ رہ سکتے ہیں۔ مغربی ممالک اور سعودی عرب کا جائزہ کرنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سعودی عرب میں پردہ کے نظام کی وجہ سے بہت ہی کم برائی نظر آتی ہے۔
جب کہ مغربی ممالک کے سروے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں عورتوں کی عفت کوئی چیز نہیں ،عورتوں کی حیثیت ایک داشتہ سے زیادہ نہیں ، جب چاہے اسے استعمال کرلیا اور جب چاہے اسے پھینک دیا۔ اس کے برعکس اسلام عورتوں کے مقام ومرتبہ میں نہ کوئی کمی کرتا ہے اور نہ اسے گلی کوچوں میں تفریح کرنے اور اپنی معاشی ذمہ داری کا بوجھ اس پر ڈالتا ہے۔آزادی نسواں کے نعرے لگانے والوں کو اگر عورتوں کے حقوق کا اتنا ہی خیال ہے تو وہ عورتوں کو میراث سے محروم کیوں رکھتے ہیں؟ شادی بیاہ کے موقع پر جہیز میں خطیر رقمیں کیوں طلب کرتے ہیں؟ ان کی عریاں تصاویر کو فلموں میں دیکھ کر لطف اندوز کیوں ہوتے ہیں؟ مخلوط تعلیم میں جہاں ان کی عصمت وعفت کا جنازہ نکلتا ہے ،اس کے لیے الگ بندو بست کیوں نہیں کرتے؟ کتنی عورتیں ایسی ہیں جو خط افلاس سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہیں،ان کی معاشی کفالت کا بار اپنے اوپر کیوں نہیں لیتے؟ ان سوالوں کا جواب یہی ہے کہ چونکہ ان امور کی انجام دہی میں حقوق نسواں کے علمبرداروں کو اپنا نقصان معلوم ہوسکتا ہے، ان کو جنسی لطف بھی حاصل نہیں ہوسکتاہے اور ان پر عورتوں کا معاشی بوجھ بھی پڑسکتاہے۔
لہٰذا وہ ان مسائل کو چھیڑتے ہی نہیں جن سے ان پر عورتوں کا معاشی بوجھ پڑتا ہو۔غرض یہ اسلام مخالف عناصر نے اسلام کی جڑوں کو کھوکھلی کرنے اور اسلام کی علمی، اخلاقی، تربیتی ،منزہ وپاکیزہ روح کو مجروح کرنے کا تہیہ کرلیا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ پردہ نشیں مسلم خواتین کی عفت وعصمت کا جنازہ نکال کر بے حجاب اور عریاں کرکے بد طینت و بد چلن داشتائوں کی طرح انھیں گلیوں ،کوچوں اور تفریح گاہوں کی زینت بنائیں،اس لیے ایسے پر خطر موقع پرضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے گھروں میں اسلامی پردہ کو رواج دیں، خواتین کو گلی ، کوچوں، تفریح گاہوں اور دیگر غیر شرعی جگہوں میں جانے سے روکا جائے،اسلام مخالف عناصر کے حربوں کو طشت از بام کیا جائے، ان کے قلب وذہن میں یہ حقیقت جاگزیں کی جائے کہ اسلام عورتوں کے حقیقی تحفظ کا پاسبان ہے اور اسلام ہی کے دائرہ میں رہ کر دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔
تحریر : سندس قمر