تحریر : ممتاز ملک
عورت ہمیشہ سے ہی پیار بھرے بولوں پر بچھتی اور کئی بار تو خود کا گراتی بھی نظر آتی ہے۔دنیا کے کئی معاشروں میں عورت کو ایک بے وقوف ، جذباتی اور ناقص العقل مخلوق کہا جاتا رہا ہے بلکہ اب بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ سب کچھ عورت کی حد سے زیادہ نرم دلی کی وجہ سے اسے سننا پڑتا ہے ۔ اور مرد انتہائی شاطرانہ انداز میں اس کی خوبی کو خامی بنا کر استعمال بھی کرتا ہے اور بعد میں اسے بدنام بھی کرتا ہے ۔ گویا عورت کی اچھائی اسکے لیئے اکثر ہی وبال بھی بن جایا کرتی ہے ۔ اس لیئے عورت کو نیکی کرنا ہو اور وہ بھی کسی مرد کیساتھ تو کم از کم دس بار ضرور سوچ لینا چاہیئے۔
ایک خاتون نے بتایا کہ اس کا سابقہ شوہر اس پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اپنے دوسرے شوہر کو چھوڑ کر دوبارہ اس سے نکاح کر لے ۔ یوں یہ حلالہ بھی ہو جائے گا ۔ جبکہ اس کا دوسرا شوہر پہلے شوہر کے مقابلے میں نہایت اچھا اور مہربان انسان ہے اور اس نے اسے کوئی تکلیف بھی نہیں دی ہے ۔ جبکہ اس نے اپنے پہلئے شوہر سے صرف اور صرف تکلیفیں اور دکھ ہی پائے ہیں ۔ بلکہ اسے طلاق بھی اس شخص نے لوگوں کے سامنے بھرے مجمے میں ذلیل کرتے ہوئے دی تھی ۔اب بات صرف اس جذباتی عورت کی ہوتی جسے عزت کا کوئی لمحہ ملا ہی نہیں یا اسے عزت دارانہ رویے کی کوئی پہچان ہی نہ ہوتی تو وہ دوڑ کر اس پہلے والے کے قدموں میں گر جاتی ۔ لیکن اب بات تھی اس عورت کے اس وقار اور عزت کی کہ جو اسے زندگی میں دوسرے شوہر کے روپ میں آنے والے انسان نے دی۔ فیصلہ اب جذبات اور عزت میں تھا۔
لہذا یہ سوچنا بھی انتہائی ضروری تھا کہ !جس انسان نے تین بار ایک عورت کو دنیا بھر کے سامنے طلاق جیسی گالی دیکر بے عزت کر کے ذندگی سے نکال دیا ہو ۔ اور پھر اس عورت کا اسی مرد کیساتھ دوبارہ ذندگی گزارنے کے لیئے کسی اور سے بیاہ کرنا اور اپنا بسایا ہوا گھر جان بوجھ کر توڑنا صرف اس سابقہ شوہر کی دلائی ہوئی اچھی امید کے جھانسے میں آکر اس کی طرف لوٹنا، کیا یہ نسوانیت کی بدترین توہین نہیں ہے۔ اکثر مرد اپنی سابقہ بیوی کو کہیں اور شادی کرتا اور خوشحال ذندگی گزارتا دیکھ کر انتقامی کاروائی پر اتر آتے ہیں اور ان کا گھر تو ڑنے کے لیئے اگر انہیں سابقہ بیوی کے پیر بھی پکڑنے پڑیں تو بھی اسے جھوٹی محبت میں پھانسنے کا جال ضرور پھینکتے ہیں۔ اور اکثر اگر عورت اپنی بیوقوفی میں اپنا گھر پھر سے اجاڑ کر آبھی جائے تو بھی اسے یا تو اپنانے سے انکار کر دیتے ہیں ۔یا پھر اپنا بھی لیں تو تاعمر دوسرےشوہر کا نام لے لیکر اسے انگاروں پر لوٹاتے رہیں گے۔
یہاں سوچنا اس خاتون کو ہے کہ ایک بار جو رشتہ ٹوٹ گیا ، اس میں ایسا کونسا اخلاص باقی رہ گیا تھا جو پانے کے لیئے اب وہ اسے دوبارہ اپنانا چاہ رہا ہے۔ ایسا شخص تو اب دودہ سے دھلا ہو کر بھی آ جائے تو کیا نسوانیت کی توہین کا داغ مٹا سکے گا۔ نہیں کبھی نہیں۔ جس شخص نے آپ کو پہلی بار اپنی ذندگی میں شامل کر کے کوئی خوشی نہیں دی ، احترام نہیں دیا، عزت نہیں دی ۔ کیونکہ یہ سب اسکے پاس آپ کے لیئے تھا ہی نہیں ۔ تو جہاں جو چیز آپ کو پہلی بار میں نہیں ملی ، اسے آپ اسی مقام پردوبارہ کیسے پا سکتی ہیں۔
حلالہ کے نام پر ہونے والا نکاح صرف اسی صورت میں کرنے کا سوچنا چاہیئے ۔ جب اس میں کوئی بہت بڑی گارنٹی موجود ہو ۔ ورنہ اسے نہ کرنا اور اجنبی ہو جانا ہی آپ کو آنے والے غموں کی شدت سے بچا سکتا ہے ۔ کیوں کہ مرد تو دس عورتوں سے بھی منہ کالا کر کے آجائے تب بھی عورت اسے معاف بھی کر دیتی ہے اور اپنا بھی لیتی ہے ۔ لیکن مرد کی شقی القلبی اپنی بیوی کو کسی اور کے نام سے صرف منسوب ہونے کا بھی سن لے تو تمام عمر یہ ہی کھوجتا رہے گا کہ وہ اس سے ملتی رہی ہو گی ؟ کیا کہتی ہو گی؟ کیا سوچتی ہو گی؟ کیا کرتی ہو گی؟ وغیرہ وغیرہ یعنی وہ ساری ذندگی اس تلاش میں رہے گا کہ کب ، کہاں، کیسے ، اپنی بیوی کو کردار کی کمزور عورت ثابت کرے۔ اسی لیئے سب سے بہتر بات یہ ہی ہے کہ جب جہاں جو رشتہ ختم ہو گیا
اسے وہیں فراموش کر دیا جائے ۔ کیونکہ کوئی ڈور اگر ٹوٹ جائے تو اسے کتنا بھی مضبوط باندھ دیا جائے بلآخر گانٹھ تو رہ ہی جاتی ہے ۔ نہ وہ پہلی سی محبت پیدا ہو سکتی ہے نہ پہلی بار کا سا اعتبار ۔ اسی لیئے کہتے ہیں کہ جوکچھ ہمیں مل جاتا ہے وہی ہمارا ہوتا ہو اور جو نہ مل سکا وہ اپنا تھا ہی کب ؟؟ تو جو اپنا تھا ہی نہیں اس کے لیئے ایک ہی بار کی خواری کیا کافی نہیں تھی۔ جو دوسری بار پھر اس دوزخ سے گزرا جائے۔
تحریر : ممتاز ملک