تحریر : رقیہ غزل
پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والا بل” حقوق نسواں ”تمام با شعور اور آگاہی رکھنے والے خواص و عوام میں زیر بحث ہے جبکہ اکثریت کو بل کی تفصیلات کا علم تک نہیں ہے اور بیشتر کا تو یہ کہنا ہے کہ ہمیں ان وقتی بدلتے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے نئے سے نئے بے جان قوانین سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے جبکہ دیہات میں رہائش پذیر قریباً 70 فیصد خواتین کو تو اس بل بارے قطعاً کوئی تفصیلات معلوم ہی نہیں ہیں او رشہروں کے اندر مقیم پڑھی لکھی خواتین پہلے ہی اپنی حکمت عملی اور سمجھداری سے اپنے معاشی اور معاشرتی حالات کا حل کرنے کی عادی ہو چکی ہیں۔
مختصراً یہ کہ اس بل کی رُو سے پنجاب کی تمام خواتین کو تحفظ دیا گیا ہے کہ اب ان کے مرد جو رشتہ میں کچھ بھی ہوں یا کوئی دیگر مرد اس بل کے نافذالعمل ہونے کے بعد پابند ہونگے کہ۔۔ نمبر1 ۔خواتین کی مرضی اور خواہش کے خلاف کسی قسم کی سختی نہیں کر سکتے اور نہ رکاوٹ ڈال سکتے ہیں نمبر2۔ان کا معاشی استحصال نہیں کر سکتے جس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کو نان نفقہ اور ضروریات زندگی فراہم کرنا مردوں پر ہر حال میں لازم ہوگا اور اگر کوئی خاتون کوئی معاشی سرگرمی گھر یا گھر سے باہر کرنا چاہے گی تو اسے کوئی مرد قطعاً نہیں روک سکے گا نمبر3۔خواتین کے جذبات پر پابندی نہیں لگائی جائے گی اور انھیں رکاوٹیں ڈال کر نفسیاتی مریض نہیں بنایا جائے گا نمبر4۔خواتین سے کسی بھی جگہ کوئی بھی مرد کوئی بدکلامی نہیں کر سکے گا۔
نمبر5۔موبائیل یا کمپیوٹر زپر خواتین کو پریشان کرنا ،حراساں کرنا ،بلیک میل کرنا یا اسی نوعیت کے دیگر تمام سائیبر کرائمز کرنا قابل جرم ہوگا اور یہ پانچوں جملہ جرائم کہ جن سے خواتین کی شہری آزادی ،خوشحالی اور اپنی مرضی کی زندگی گزارنے پر کوئی قدغن مقصود ہوگی اور وہ خاتون اسے نا پسند کرتی ہوگی تو کوئی مرد خواہ وہ رشتہ میں کچھ ہو یا سوسائٹی کا فرد ہو وہ مذکورہ بالا پانچ میں سے کوئی قدم اٹھائے گا تواس کے خلاف اس قانون کی رو سے مقدمہ قائم کیا جائے گا’ ٹول فری نمبر پر اطلاع کی جائے گی ڈسٹرکٹ پروٹیشن سٹی کا پروٹیکشن آفیسر متعلقہ شخص سے رابطہ کرے گا اورحسب قانون ھذاکاروائی کرے گا’ کسی بھی تشدد شدہ خاتون کو کوئی مرد گھر سے بے دخل نہیں کر سکے گا’ہر طرح کے اخراجات مرد برداشت کرے گا ‘حتی کہ تنخواہ سے ازخود کٹوتی کر کے متاثرہ خاتون کو تھما دی جائے گی’ متاثرہ خواتین کے لیے شیلٹرز ہومز بنائے جائیں گے ‘خواتین اور بچوں کو بورڈنگ اور لاجنگ کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی ‘مصالحت کیلئے سنٹرز بنائے جائیں گے۔
مزید براں یہ کہ درخواست موصول ہونے پر تفصیلات کا ڈیٹا بیس مرتب ہوگا ‘پروٹیکشن آفسیر مرد کو بطور سزا و تحفظ خاتون دو دن کے لیے گھر سے بے دخل کر سکے گا’جی پی ایس ٹریکٹر سسٹم کا کڑا بازو پر پہنایا جا سکے گا’ اتارنے والے یا اس سے زبردستی کرنے والوں کو ایک سال قید اور 50ہزارتا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جاسکے گا’تشدد کے مرتکب افراد کے اسلحہ خریدنے اورلائیسنس حاصل کرنے پر پابندی لگا دی جائے گی ‘اگر پہلے سے اسلحہ موجود ہوگا تو عدالت میں جمع کروا دیا جائے گا ‘جبکہ غلط یا جھوٹی شکایت پر تین ماہ کی قید اور 50 ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جاسکے گا۔
مندرجہ بالا مختصر تفصیلات جو ابھی تک سمجھنے میں آسکی ہیں صرف اس لیے دی گئی ہیں کہ آپ بل کے بارے جان کاری حاصل کر سکیں آپ کے علم میں ہے کہ ہمارے علما ء کرام ،سیاستدان اور دانشوران اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں مولانا فضل الرحمن نے اسمبلی میں پنجاب کے اراکین اسمبلی مرد نمائندگان کو” زن مرید ”کہا ہے مزید یہ بھی کہا ہے کہ ہماری بہن ،بیٹی آدھی رات کو گھر واپس آئے تو باپ یا بھائی پوچھ نہیں سکتے کیونکہ ایسا کرنا خلاف قانون شمار ہوگا اس بل بارے مختلف آرا گردش کر رہی ہیں کسی نے اس بل کو بے شرمی اور بے حیائی کا قانون کہا ہے اورکسی نے اسے اسلام مخالف قانون گردانا ہے۔چئیرمین علما کونسل طاہر محمد اشرفی نے اس بل کو مردوں کی تضحیک اور مزاق کہا ہے ان کے مطابق اگر گھروں کو جبری قوانین کا پابند کیا گیا تو ایسا نہیں چلے گا اس سے نظام خاندانی اور معاشرتی اقدار بر باد ہو جائیں گی۔دیگر طبقوں کی طرف سے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس بل پر عملدر آمد سے خاندانوں کے اندر تصادم بڑھے گا اور صلح کے راستے بند ہو جائیں گے ۔اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین نے حقوق نسواں بل کو اسلامی تعلیمات اور آئین سے متصادم قرار دیا ہے اور ان کے مطابق ایسی قانون سازی کی ہی نہیں جا سکتی جبکہ کونسل آئندہ مزید سفارشات مرتب کرے گی۔
اگر تعصب اور اختلافات کو پس پشت ڈال کر دیکھا جائے تو چند باتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں یہ کہ ہمارے ملک کے اندر وقتی تقاضوں اور بار بار پیش ہونے والے اندوہناک واقعات و حادثات کے پیش نظر نئے سے نئے قوانین بنا لیے جاتے ہیں جبکہ ہر نئے قانون کی موجودگی میں ضابطہ ہائے فوجداری ، دیوانی اور ماضی کے بنائے ہوئے بے شمار آرڈینینس اور ضابے نہ تو کالعدم قرار دئیے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کو جاری رکھا جاتا ہے ۔بل جات پر جو نئے قوانین بنائے جاتے ہیں ان میں کچھ اس طرح کی انتہا پسندی اور عاقبت نا اندیشی دکھائی جاتی ہے کہ وہ قابل عمل نہیں رہتے رہا مسئلہ ممبران اسمبلی یا پارلیمینٹ کا تو ان کی بات کرنے کا کچھ فائدہ ہی نہیں کیونکہ ہمارے ملک میں پارٹی بازی اور اختلاف برائے اختلاف کی سیاست نے ہماری تمام اقدار کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
ہمارے ہاں بڑے بڑے دانشورن اور سیاسی قائدین ”وقتی مصلحتوں ”کے تحت خاموش تماشائی یا ہرکارے بن کر قوانین منظور کرواتے ہیں اور پھر بسا اوقات خود ہی ان کی پاداش میں پھنسے ہوتے ہیں آپس کی مخالفت اور پارٹیوں سے وفا داریوں کے نام پر وہ بالکل اندھے ہو کر ہاں میں ہاں اور ناں میں ناں ملا رہے ہوتے ہیں اور اسی طرح یہ بل جات منظور ہوتے اورر دی کی ٹوکریوں کی زیبائش بنتے رہتے ہیں اور اسی طرح علماء کرام نے فرقہ واریت میں اسلامی اور فقہی گتھیوں کو الجھا رکھا ہے کبھی متفق نہیں ہوتے۔
اگر آئین پاکستان کا عمیق نظری سے مطالعہ کیا جائے اور پہلے سے موجود ضابطہ ہائے کو پیش نگاہ رکھا جائے تو تمام ایسے جرائم کہ جن کے سد باب اور روک تھام کے لیے قوانین موجود تھے ان کو ازسر نو بنانے کی ضرورت نہ تھی اور اگر کوئی نئے قوانین یہاں مقصود تھے تو ایسے قوانین بنائے جاتے کہ جن سے معاشرتی زندگی میں کسی بھی قسم کا تصادم پیدا ہونے کا امکان نہ رہتا بلکہ جرائم کی بیخ کنی ہوتی ۔خاص طور پر ایسے قوانین جن سے ہماری معاشرتی اقدار کے اندر رہتے ہوئے معاشرے کا سلجھائو ممکن ہے ان پر عملدرآمد کو یقینی بنادیا جاتا جیسے خاتون کی شکایت پر مرد گھر سے باہر رہنے پر مجبور کرنا یا ٹریکر کڑا پہنانا یا عورت کو گھر سے بے دخل نہ کر سکنا بظاہر تو ایسے اقدام سے خواتین کی برتری سامنے آجائے گی لیکن ردعمل کے طور پر صلح کے امکانات بالکل ختم ہو کر خاندانوں میں تصادم بڑھ سکے گا۔
معاشی بد حالیوں والے ملک کے باسیوں میں انتہا پسندی بڑھنے سے لا تعلقی اور ہلاکتوں کے اسباب پیدا ہوجائیں گے لہذا اس قانون پر مزید غور و فکر کیا جائے اور اسے نارمل بنایا جائے مزید برآں صرف متعلقہ سرکاری عہدے داران اور محکموں کے لیے رشوت یا جانبداری کے دروازے نہ کھولے جائیںیہ وہ ملک ہے جس میں ہمارے فیملی لاز پہلے سے موجود ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ ایک خانگی معاملہ فیملی کورٹ میں جاتا ہے اور 2007 سے لیکر 2016 تک بھی عدالتیں خواتین کو اپنے فیصلوں کے مطابق طلاقوں کے باوجود ان کا سامان جہیز ،حق مہر یا دیگر واجبات کہ جن کا عدالتوں نے انھیں حقدار ٹھہرایا اور مقدمات کو ڈگری کیا اس پر عملدرآمد نہ کروا سکی ہیں تو دراصل معاملہ آئے دن قوانین بنانے یا ان پر تنقید کرنے کا نہیں بلکہ ان پر جائزطریقے اور مناسب حد تک عملدرآمد کا ہے ۔حقدار لٹ جاتے ہیں ‘مر جاتے ہیں ‘حکومتیں تبدیل ہو جاتی ہیں ‘جج ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں’ پارٹیاں لڑ مرجاتی ہیں’ رشوت اور بد دیانتی پر مبنی حکومتی ادارے عوام کی بے بسی کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
متنازعہ بل جات بنائیں یا نہ بنائیں’ ان کا کوئی فائدہ نہیں’ صرف سچائی ،ایمانداری اور دیانتداری سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ بل جات کوئی حل نہیں ہیں’پہلے سے موجود قوانین کے مطابق معاشی اور سماجی انصاف کو یقینی بنائیں’قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خوف خدا یاددلائیں ‘عدالتی نظام کو درست کریں ‘ہر جرم مٹ جائے گا ۔نہ کسی سطح پر لوٹ مار رہے گی ‘نہ معاشی بدحالی ‘نہ سماجی ابتری ‘نہ لاقانونیت ‘نہ قومی خزانوں کی لوٹ مار ‘نہ بھوک کا راج ہوگا ۔جس ملک میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہو اور اگر فراہمی بھی ہو تو صرف پارٹیوں کے کارکنان کی حد تک ہو وہاں جبر پر مبنی قوانین بنا کر عوامی زندگیوں پر خوف و ہراس کے پہرے نہ بٹھائے جائیں۔آپ عوام کو بے شک کچھ نہ دیں صرف انصاف کو یقینی بنادیں تو ہمارا معاشرہ دنیا کا بہترین معاشرہ بن جائے گا ،چند جگہوں پر اشتہاری سہولتوں کی فراہمی کے تذکرے ایک عام فرد کو سکون یا خوشی نہیں دے سکتے۔
تحریر : رقیہ غزل