پنجاب میں گندم کی کٹائی کا عمل شروع ہوچکا ہے، مشرقی پنجاب کے لوگ گندم کی کٹائی کے اس سیزن میں بیساکھی کاتہوارمناتے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل متحدہ پنجاب میں یہ تہوار اپنی پوری آب و تاب اور خوشیوں کے ساتھ منایا جاتا تھا۔ گندم کی کٹائی کے موقع پر پنجاب کے گھبرو جوان ڈھول کی تھاپ پر کٹائی شروع کرتے، الہڑ مٹیاریں بھی سج دھج کر بیساکھی کے گیت گاتیں۔ لیکن آج یہ صدائیں وقت کی گرم سرد ہواؤں میں گم ہوکر رہ گئی ہیں۔ بیساکھی آج سکھوں کا مذہبی تہوار بن کر رہ گیا ہے۔ اس دن گوردواروں میں دن بھر بھجن کیرتن اور سکھوں کے مذہبی گیت ’’گروبانی‘‘ گائے جاتے ہیں؛ جبکہ لنگر کا بھی خاص انتظام کیا جاتا ہے۔
سکھ روایات کے مطابق 1699 میں سکھوں کے دسویں گورو گوبند سنگھ نے بیساکھی کے موقع پر سنگھ سنگت کو جمع کیا اور انہیں ایک نئی پہچان دی۔ گورو گوبند سنگھ نے مجمعے سے مخاطب ہوکر کہا تھا: ہے کوئی جو خالصہ پنتھ کےلیے قربانی دے؟ گورو کا حکم سن کر ایک جوان کھڑا ہوا، گورو جی اسے ایک خیمے میں لے گئے جب واپس آئے تو ان کی تلوار سے خون ٹپک رہا تھا۔ گورو جی پھر بولے: کوئی اور ہے جو خالصہ پنتھ کےلیے قربانی دے۔ ایک اور شخص آگے بڑھا، گورو گوبند اسے بھی خیمے میں لے گئے اور جب واپس لوٹے تو پھر تلوار سے خون ٹپک رہا تھا۔ اسی طرح گورو گوبند جی نے پانچ افراد کو اندربلایا اور جب یہ پانچوں لوگ خیمے سے باہر نکلے تو ان کا روپ بدل چکا تھا۔ ان لوگوں کو گورو کے پانچ پیارے کہا جاتا ہے۔ سکھوں کی مذہبی تقریبات میں آج بھی کئی سکھ ان پانچ پیاروں کا روپ دھارتے ہیں اور انہیں بہت عزت اوراحترام دیا جاتا ہے۔
گورو گوبند سنگھ نے سکھوں کےلیے پانچ چیزیں لازمی قراردیں: کچھا، کڑا، کیس یعنی بال، کنگھی اور کرپان۔ سکھ مذہب کے ماننے والے مردوں کو سکھ یعنی شیر اور عورتوں کو شیرنی کا لقب دیا گیا۔ یہ دن سکھوں کےلیے خالصہ کا جنم دن کہلاتا ہے، اس طرح بیساکھی کا ثقافتی تہوار خالصہ جنم دن میں گم ہوکر رہ گیا۔
سکھ خالصہ جنم دن کا تہوار پاکستان کے شہر حسن ابدال کے گوردوارہ پنجہ صاحب میں منایا جاتا ہے۔ تین روزہ تقریبات میں بھارت سمیت دنیا بھر سے سکھ یاتری یہاں آتے اور مذہبی رسومات اداکرتے ہیں۔ اس سال بھی تقریباً 1500 سکھ یاتری بھارت جبکہ ڈھائی ہزار سے زائد یورپ اور کینیڈا سے پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ بھارتی مہمانوں کا لاہور کے واہگہ بارڈر پر پرتپاک استقبال کیا گیا اور پہلی بار انہیں رینجرز کی سیکیورٹی مہیا کی گئی۔
حسن ابدال میں بیساکھی میلہ منانے آئے ہوئے سردار بشن سنگھ نے بتایا کہ اب تو بیساکھی کی خوشیاں وقت کی گرم سرد ہواؤں میں گم ہوکر رہ گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بیساکھی میلے کا آغاز گوردوارہ پنجہ صاحب میں ’’گرنتھ صاحب‘‘ کے پارٹ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ مذہبی رسومات کے دوران یاتری گوردوارے کے درمیان واقع تالاب میں اشنان کرتے ہیں۔ سکھ عقیدے کے مطابق اس تالاب میں نہانے سے ان کے تمام کردہ گناہ دھل جاتے ہیں اور وہ گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں۔
گوردوارے میں بہنے والے چشمے کے پانی کو سکھ یاتری مقدس سمجھتے ہوئے اپنے ساتھ بوتلوں میں لے جاتے ہیں تاکہ جو زائرین یاترا پر نہ آسکے وہ بھی اس سے مستفید ہوسکیں۔
تقریبات کے آخری دن بھوگ کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ سکھ یاتری گورونانک کی بیٹھک میں بڑی عقیدت اور انہماک کے ساتھ گرنتھ صاحب کے پاٹ پڑھتے اور سنتے ہیں۔ گوردوارے کے اندر پرشاد پکائے جاتے ہیں۔ بھارت سے آئے ہوئے ایک سکھ یاتری گورویندر سنگھ نے کہا ’’ایک زمانہ تھا جب بیساکھ کا مہینہ آتا تھا تو پورے علاقے میں لوگ خوشیاں مناتے تھے، ڈھول کی تھاپ پر لڈیاں اور بھنگڑے ڈالتے تھے اور ہر طرف خوشی کا سماں ہوتا تھا؛ لیکن اب تو لگتا ہے وہ سب ایک خواب تھا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب ایک زرعی معاشرہ ہے اور اس کی اقدار، رسم و رواج اور تہوار، سب زراعت سے جڑے ہیں۔ جیسے گندم کی بوائی کے بعد پنجاب کے لوگ لوڑی کا تہوار مناتے تھے اور کٹائی کے وقت بیساکھی کا۔ ان تہواروں میں پنجاب کے لوگوں کی اپنی دھرتی سے محبت اور زراعت سے جڑی خوشیاں اور جذبات صاف نظر آتے تھے، لیکن اب زراعت بھی وہ نہیں رہی اور وہ تہوار بھی ماضی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اور آنے والی نئی نسل اپنی پنجابی روایات اور تہواروں کو بھولتی جارہی ہے۔
اکثر سکھ یاتری یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی جو تصویر بھارت میں دکھائی جاتی ہے وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں مکمل آزادی ہے اور یہاں کے مقامی افراد انہیں مہمان کا درجہ دیتے ہیں جبکہ اس کے برعکس بھارت میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں خصوصاً بابری مسجد کو جس انداز میں شہید کیا گیا اور اب گائے کو ذبح کئے جانے کے معاملے کو لے کرمسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں بیساکھی کا تہوار اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا مظہر ہے۔