تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
آج جہاں سرزمینِ ترکی میں ماہِ رواں کی سولہ تاریخ جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب جو ہوااِس میں شک نہیں کہ یہ دنیاکی تاریخ کے ابواب میں ایک انوکھا واقعہ ہے جس میں نہتے عوام نے اپنی ہی فوج کو سڑکوں پر کھسیٹا اوراپنے باغی جسموں والے فوجیوں کے بدن سے فوجی وردیوں کو اُتارپھینکااوراِس کی خوب بے حرمتی کی حالانکہ وہ ایسا نہیں چاہتے تھے مگر چونکہ تُرکی عوام کی منتخب جمہوری حکومت پر ابرہہ نما چندباغی فوجی جرنیل او ر فوجیوں نے مل کر شب خون مارنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تب جمہوریت پسند تُرک عوام نے آو ¿ دیکھانہ تاو ¿، اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر ابرہہ جیسے اُن جرنیل اور اِن کے حواری جمہور دُشمن فوجیوں کے بھاری بھرکم ٹینکوں اور آگ کے شعلے اُگلتی بندوقوں کے سامنے اپنے سینے چاک کرکے کھڑے ہوگئے جن کی ہمت اور بہادری نے مارشل لاءکے دیوتاو ¿ں کے بت پاش پاش کردیئے یقینایہ جمہوریت پسند نظریاتی تُرک عوام کی ایک عظیم کامیابی ہے جیسے نہ صرف تُرک عوام بلکہ ساری دنیا تاقیامت یاد رکھے گی اور اِس واقعے میں شہیدوزخمی ہونے والے بہادر ترک سپوتوں کو سلام پیش کرتے ہوئے مارے اور گرفتار ہونے والے باغی ترک جرنیل اور فوجیوں کے منہ پر کالک ملتی رہے گی۔
اگرچہ اِ س میں کوئی شک نہیں ہے کہ جہاں یقینایہ واقعہ ٹینکوں اور آگ برساتی بندوقوں سے لیس دورجدیدکے ابرہہ نما آمروںکے لئے نشانِ عبرت ہے تو وہیں دنیا کے بہت سے ایسے ممالک کے جمہوریت پسند حسین ترین جمہوری دیوی کے جمہوریت کے پجاری حکمرانو، سیاستدانوںاور اداروں کے سربراہان کے لئے بھی لمحہ فکریہ ضرورہے کہ جو جمہوریت کے نماپر سارے جمہوری ثمرات اپنی ذاتوں اوراپنے خاندان کے افراد اور صرف اپنی پارٹی کے کارکنان اور اپنے ہی حلقوں کے ووٹروں تک محدود رکھ کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ جمہور اور جمہوریت کا حق اداکررہے ہیں یاکہ اُنہوںنے جمہوریت کا حق پوری طرح سے اداکردیاہے تو وہ تُرکی میں پیش آئے اِس واقعے سے خوابِ خرگوش سے اُٹھیں اور اپنی آنکھیں کھولیں اور نہ صرف یہ بلکہ اَ ب یہ لوگ اِس کے ساتھ ساتھ وقتاََ فوقتاََ اپنا اور اپنی جمہوری حکومتوں کا بھی محاسبہ ضرورکرتے رہاکریں کہ کیا یہ جمہوری ثمرات اپنے عوام تک صحیح طریقوں سے پہنچابھی رہے ہیں یا نہیں ؟یا یہ خود کو اور اپنے عوام کو آمرابرہوں سے ڈراڈراکر سارے جمہوری ثمرات اپنے ہی دامن میں بھرے جارہے ہیں اور عوام کو اپنی ذا ت کے لئے نام نہاد جمہوری چراغ دکھاکراِسے جمہوری اُجالے اور اِس کے بنیادی حقوق سے محروم کررہے ہیں اور اپنے عوام کو قومی خزانہ بھرنے کے لئے ٹیکسوں اور مہنگائی کے بیجا بوجھ تلے غرق کرکے اِن کاستیاناس کررہے ہیں اور دوسری جانب یہ خود تو خاموشی سے اِسی قومی خزانے سے اللے تللے میںمصروف ہیں اور آف شور کمپنیاں بنابناکرقومی خزانہ لوٹ رہے ہیں۔
پھرایسے میں آنے والے وقتوں میں جب کہیں سے کوئی ابرہہ جیساآمراِنہیںگردنوں سے دپوچ لے اور اِن کے گلوں میں آمریت کا طوق ڈالے تو پھر یہ بلبلااُٹھیں اور بِلوں میں چھپ کر اپنے اپنے منہ نکال کر چیختے پھریں گے کہ ہمارے ساتھ بڑاظلم ہواہے(حالانکہ ا ِنہوں نے تو اپنے دورِاقتدارمیں تو روزِ اول ہی سے جمہوراور جمہوریت کانام لے کر عوام کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ جاری رکھاہواتھا) اور ہماری حکومت کو کام ہی نہیں کرنے دیاگیاہے۔جبکہ ایسانہیں جیساکہ تب کہتے پھریں گے۔
حق یہ ہے کہ اِنہوں نے اپنے دورِاقتدار میں عوامی مسائل کے فوری حل کے لئے ایک رتی کا بھی کام نہیں کیا سوائے اپنا الوسیدھاکرنے کے یہ کچھ اور نہیں کرتے رہے، آج یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ اِدھر اِن دِنوں جیسی جمہوری حکومت اور اِس کے جنتے بھی جمہوری حکمران اور قومی اداروں میں اِن کے جتنے بھی ہم خیال کارندے جِدھر کہیں بھی ہیں اِنہوں نے اپنے عوام کو کیسے اور کتنے جمہوری ثمرات منتقل کئے ہیں؟؟؟یہ سب کو معلوم ہے۔
ویسے تو اِدھر آج بھی کہنے کو جمہوری حکومت ہے مگر بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑرہی ہے کہ آج 21ویں صدی کی ہماری موجودہ جمہوری حکومت میں بھی عوام پینے کے صاف پانی ، جدید علاج کے مراکز ، سستی تعلیم ، خالص خوراک اورجدیدسفری سہولیات سے بھی محروم ہیں بلکہ دنیاکے بارہویں انٹرنیشنل شہرِ کراچی میں تو وفاق اور سندھ حکومت نے مل کر کراچی کو گندگی اور غلاظت کا ڈھیر بنادیاہے اوراَب یقینی طور پر وفاقی اور سندھ حکومتیں اور کراچی کی ضلعی انتظامیہ مل کر کراچی کی گلی کوچوں اورشاہراہوں پر مہینوں مہینوں سے گٹروں سے اُبلتے تالاب کی شکل اختیار کرتے سیوریج کے گندے پانی پر سیاست کر رہی ہیں۔
اَب ایسے میں اِن کی آپس کی لڑائیوں میں پستے عوام کسی اور جانب اپنے مسائل کے فوری حل اور مدد کے لئے پکاریں تو اِ س میں کون سی ایسی برائی ہے؟؟ لامحالہ پریشان حال عوام تو اپنے مسائل کے فوری حل کے خاطرکسی طاقتور کو ہی پکاریں گے؟؟اَب جو کے وہ پکاربھی رہے ہیں،ایسے میں اُمید ہے کہ عنقریب سیاستدانوں کا احتساب کرنے کے لئے مُلک کا کوئی ادارہ ضرورعوامی آوازپر لبیک کہے گااور حکمرانواور سیاستدانوں سمیت عوامی خدمت سے سیاسی اور انتقامی طور پر منہ چرانے اور چھپانے والے اداروں کے سربراہان سے بازپرس کرے گااور کرنابھی چاہئے کیونکہ ہمارے موجودہ حکمرانوں ، سیاستدانوں اور عوامی مسائل کے حل کرنے والے اداروں کے سربراہان اور افراد نے تو ایک ڈھلے کا بھی کام نہیں کیا ہے اَب ایسے میں کوئی طاقتورادارہ ہماری نام نہاد جمہوری حکومت کے کرتادھرتاو ¿ں کا احتساب نہ کرے تو پھر کون کیا کرے گا؟؟
بہر حال،ترکی میں تو ایسا نہیں تھا ترک صدر طبیب ایردوان تو اپنی جمہوری حکومت کے تما م تر جمہوری ثمرات اپنے عوام کو اُنڈیلتے آئے ہیں اُنڈیل رہے ہیںاور اِن کا اپنی حکومت میں آئندہ بھی سارے جمہوری ثمرات اپنے عوام کو اُنڈیلنے کا ارادہ ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اِس کے باوجود بھی اِن کی جمہوری حکومت پر شب خون مار کر جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی گئی یہ بات کچھ سمجھ سے بالاتر ہے …؟؟آج نہ صرف ترک عوام بلکہ ساری دنیا بالخصوص ہماری نام نہاد جمہوریت کے پُجاری بھی اِس کا جواب چاہتے ہیں کہ آخر ترکی میں ایسا کیا تھا؟؟ جس کی وجہ سے ترکی میں ایک منتخب اور خالص جمہوری حکومت کو کچلنے کے لئے مارشل لاءکے حامیوں کو اچھی بھلی جمہوری حکومت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرناپڑااور پھراِنہیںجمہوری عوام کے ہاتھوں عبرت ناک انجام سے دوچار بھی ہونا پڑا گیا ہے۔
اگرچہ اِن دِنوں طبیب ایردوان اپنی ساری ٹیم کے ہمراہ پوری طرح سے فام میں نظرآرہے ہیں اور اَب یہ ترکی قوانین میں ایک بارپھر بغاوت کے مرتکب ناسوروں کے خلاف سزائے موت کاسخت قانون لانے کے لئے قانون سازی میں بھی مصروف ہیں اور اِس کے ساتھ ہی ایردوان نے یہ ارادہ بھی ظاہر کردیاہے کہ ترکی باغی فوجیوں کے ہاتھوں بغاوت کے حالیہ واقعے کے بعدجلداَزجلد اِس بات کی پوری طرح سے جانچ پڑتال کی جائے گی کہ ترک فوج اور سرکاری ایجنسیوں سمیت ترک اداروں میں جتنے بھی امریکی حامی ترک باغی عزائم کے حامل افراد اور گروپس ہیں اِن کے خلا ف قانونی چارہ جوئی کرنے کے بعد اِنہیں سائیڈلائن کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی ایساواقعہ رونمانہ ہونے پائے جس سے ترک جمہوریت کو خطرات لاحق ہوں اور پھر ایسی کسی بغاوت کا ترک عوام کو سامنا نہ کرنا پڑے۔
تاہم آج یہاں یہ بات بھی ترکی عوام اور دنیابھر کی جمہوری طاقتوں کے سامنے عیاں ہوچکی ہے کہ پچھلے دِنوں ترکی میںجو کچھ بھی ہواہے اِس کے پسِ پردہ امریکااور امریکا ہی میں بیٹھے طبیب ایردوان مخالف شہری فتح اللہ گولن اورترک رستم اور جنرل آرکن اور سابق ائیرچیف کی جمہوردُشمن سازشیں کارفرماتھیں اَب جن کا قلع قمع کرنے کے لئے ایردوان سرگرم ہوگئے ہیں اور اُمیدہے کہ وہ اپنے اِس مقصد میں بہت جلد کامیاب بھی ہو جائیں گے۔
جبکہ اِس سارے منظر اور پس منظر میںیہ بات بھی ترک صدر طبیب ایردوان اور وہاں کے عوام اور جمہوریت پسند اداروں کے سربراہان کے دل و دماغ میں رہے گوکہ امریکا ابھی تو اپنی سازش میں کامیاب نہیں ہوپایاہے مگر اِس کا یہ بھی ہرگزمطلب نہ لیاجائے کہ وہ اپنی اِس شکستِ فاش پر خاموش ہوکر بیٹھ جائے گاوہ اپنی کامیابی حاصل کرنے تک بارباراور ہر مرتبہ ایک نئی سازش کے ساتھ سامنے آئے گااوریہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا کہ جب تک امریکا طبیب ایردوان کی حکومت کا تختہ پلٹ اِنہیںاور اِن ٹیم کو بھٹو،صدام ، حُسنی اورقذافی اور دیگر کی طرح نشانِ عبرت نہ بنادے یہ اپنی شیطانی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا اور دنیایہ بھی نہ سمجھے کہ امریکاکی یہ اور اِس جیسی سازش صرف تُرکی تک ہی محددد ہے بلکہ ایسانہیں ہے جبکہ اِس نے اپنی خصلت اور عادت کے مطابق آج تُرکی جیسی یا اِس سے ذراسی مختلف سازش اوربہت سے مُسلم ممالک جن میں خاص طور پر بادشاہی سعودی حکومت سمیت بہت سے جمہوری اور نام نہاد جمہوری مسلم حکمرانوں کی حکومتوں کا تختہ پلٹنے کے لئے بھی تیارکررکھی ہیںایسے میں ضرورت اِس امرکی ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران اور سیاستدان اور اداروں کے سربراہان امریکی دوستی کی شکل میںچھپے دومنہ والے زہریلے سانپ کو پہچانیں اور اِس کی ہر سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلے سے خود کو تیارکرلیں توبچت ہے ورنہ ورنہ…؟ ۔ اگرچہ طبیب ایردوان کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے سے متعلق ابتدائی طور پر جونام سرفہرست تھاوہ فتح اللہ گولن کا نام تھا مگراَب جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے اِس بغاوت کی سازش کے پیچھے کئی اور نام بھی سامنے آتے جا رہے ہیں۔
شروعات کے لمحات میں ایسی بھی کچھ خبریںآتی رہی ہیں کہ امریکا میں بیٹھے امریکی ایجنٹ فتح اللہ گولن کا اشارہ ملتے ہی چند مٹھی بھرتُرک باغی فوجیوں نے اپنے صدر طبیب ایردوان کی اچھی بھلی جمہوری حکومت پرشب خون مارکراِس کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی تووہیں ترک عوام کے دلوںکی دھڑکن بننے والے طبیب ایردوان کا سوشل میڈیا سے ایک پیغام ملتے ہی ترک عوام اپنے صدر کی ایک آواز پر لبیک کہتی اور اپنے گریبان چاک کرتی سڑکوں پر نکل آئی اورباغی فوجیوں کے سامنے سینہ تان کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی اور پھر دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ وہاں کے لوگوں نے جمہوریت کو بچانے کے خاطر کیسے ترکی کی شاہراہوں پر باغی فوجیوں اور اِن کے دندناتے ٹینکوں کے نیچے لیٹ کراپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیااورایردوان کی جمہوری دیوی کی جمہوریت پسندحکومت کی عزت کو آمروں (دورجدید کے ابرہہ اوراِس کے بھاری بھرکم ٹینکوں اور آگ برساتی بندوقوں سے) تارتار کرکے مارشل لاءکا خواب دیکھنے والے ابرہہ آمروں کا خواب چکناچورکرکے رکھ دیااور فتح اللہ گولن کے گولے برساتے باغی ترکی فوجیوں کے ٹینکوں اور بندوقوں اور اِن کے جسموں کو پتھروں سے چھلنی کرکے سب کو ابرہہ کے ہاتھیوں کی طرح بھرکس بنا کررکھ دیا یقینا یہ اِدھر تُرکی میں جمہوری صدر طبیب ایردوان اور جمہوری عوام کی بے مثل اور تاریخ ساز فتح ہے تو اُدھر ہی امریکا کے ہاتھوں لڈن پپوبنے امریکی ایجنٹ فتح اللہ گولن کے چہرے اور اِس سمیت اِس کے ظاہر وباطن چیلے چپاٹوں کے باطل پرست عزائم و خیالات پر تاریخ کی سیاہی مل دی گئی ہے۔
اَب وقت کا تقاضہ تو یہی ہے کہ آج امریکامیں ترک فتح اللہ گولن جس نے اپنے ہم خیال29سے زائدجرنیل اور کئی سوفوجی اہلکاروں کو استعمال کرکے ٹینکوں اور فوجی گولوں اور شعلے برساتی بندوقوں سے ترکی کی منتخب طبیب ایردوان کی جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کی سازش تیار کی اور طاقت کے ذریعے راتوں رات ترکی فتح کرنے کا خواب دیکھا مگر وہاں کے جمہوریت پسند عوام نے سازشی عناصر کا یہ خواب چکناچورکردیا آج فتح اللہ گولن جیسے مسلم دنیا کے جن ممالک سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی ایجنٹ امریکامیں موجود ہیں اور جو امریکی ڈالروں پہ پل کر وہاں سے اپنی جمہوری حکومتوں کے خلاف کوئی تُرکی جیسی ناپاک فوجی بغاو ت کی سازش بُن رہے ہیں اَب تو وہ اپنے عبرت ناک انجام سے ڈریں اور اِسی کے ساتھ ہی ہمارے پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بھی چاہئے کہ یہ وبھی ترکی کے واقعے سے ضرور سبق حاصل کریں اور سوچیں کہ جب طبیب ایردوان کی خالص جمہوری حکومت کا امریکا تختہ پلٹنے کی سازش تیارکراور کرواسکتاہے تو پھر اِن کی اِس نام نہاد جمہوری حکومت کو کسی کے ہاتھوں آگے پیچھے کروانے کے لئے امریکا کیا کچھ نہیں کرسکتاہے؟؟ کیونکہ یہ سب جانتے ہیںکہ آج ہمارے یہاں حکمرانوں اور سیاستدانوں نے سارے جمہوری ثمرات عوام تک منتقل ہونے کے بجائے ہمارے اِن پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اپنے تک ہی محدودرکھاہوا ہے…چلتے چلتے ایک بات یہ کہ آج جہاں ترکی میں فوجی بغاوت کو کچلنے کے بعد طبیب ایردوان کا کڑاامتحان شروع ہوچکاہے تو وہیں ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لئے بھی یہ کڑے امتحان کا وقت ہے کہ اَب یہ بھی اپنامحاسبہ کریںکہ کیا اِنہوںنے جمہوری روح کے مطابق سارے جمہوری ثمرات اپنے وعدوں کے مطابق اپنے عوام کو دے دیئے ہیں یا کہ نہیں ؟؟نہیں تو دے دیں…ورنہ… ورنہ…. پھر یہ عوام کے ہاتھوںاپنے کسی کڑے احتساب کے لئے تیار ہو جائیں۔(ختم شُد)
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com