تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی
چند سانسیں ہیں حقیقت، سانس رکنے دیجئے
بن کے رہ جائیں گے دنیا کے لئے افسانہ ہم
ہر انسان کی طرح ہماری زندگی میں بھی اچھے اور بُرے دن آتے جاتے رہے ہیں۔ اگر اچھے دنوں نے ہمیں خوشیاں فراہم کیں تو بُرے دن ہمیں نچوڑتے بھی رہے لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ہمیں کوئی عذر نہیں ہے کہ کاش! ہماری کتاب کا بھی کسی طرح اجراء ہو جائے جو کہ ہماری زندگی کا ایک اور خوبصورت دن ہوگا۔ کراچی کے متوسط علاقے میں زندگی کی بیالیس بہاریں ایک طویل عرصہ ہوتا ہے پھر بھی اس اُمید پر قائم ہوں کہ کبھی کوئی ہماری کتاب بھی زینتِ دنیا ہو جائے اور کتاب کی رسمِ اجرأ میں دنیائے ادب کے بیش بہا نگینے صرف ہمارے لئے ایک ہی مقام پر جمع ہو جائیں۔ ہماری اس تقریب میں وہ تابندہ آفتاب اپنی روشنی بکھیریں جن کے آگے ہماری حیثیت کسی ٹمٹماتے ہوئے چراغ سے زیادہ نہیں۔
جب ہمارے بولنے کا وقت آئے تو ہم بھی کچھ کہنے سے پہلے ہی معذرت طلب کر لیں اور دست بستہ عرض کریں مجھے تھوڑا بہت لکھنا تو آتا ہے لیکن بولنا نہیں آتا۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ دراصل بہت سے لوگ فطری طور پر خاموش طبع اور کم سُخن ہوتے ہیں انہیں میں سے میں بھی ہوں اور کسی محفل میں بولنا ہمارے لئے بہت مشکل کام ہوتا ہے شاید اسی لئے میں بولنے سے زیادہ چُپ رہنا پسند کرتا ہوں۔ بلا وجہ منہ کھول کر بے ادب ہونے سے کہیں بہتر ہے کہ خاموش رہ کر ادب کی حدوں میں رہا جائے۔
بقول شاعر:
زیادہ بولنے سے تو بہت بہتر ہے چُپ رہنا
ادب کی حد میں رہنے سے سُخن میلا نہیں ہوتا
میرے کم بولنے یا نہ بولنے کی کچھ جائز وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جس کا قلم چلتا ہے ضروری نہیں ہے کہ اس کی زبان بھی چلتی ہو اس لئے کہ تحریر اور تقریر دو الگ الگ ہنر ہیں اور کوئی ایک شخص ان دونوں میں مہارت رکھتا ہو ایسا ساذ و نادر ہی ہوتا ہے یعنی ہم لاکھ کوشش کریں دانشورانِ ادب جیسے آل رائونڈر تو ہونے سے رہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کم بولنے والے کی بیوقوفیاں اس کی خاموشی کے پیچھے چھپی رہتی ہیں۔ میں بھی اسی ڈر سے کم بولتا ہوںکہ کہیں لوگ یہ نہ کہنے لگ جائیں کہ یہ وہ صاحب تو نہیں لگتے جن کے مضامین پاکستان کے معروف اخباروں میں چھپتے رہتے ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے تحریری غلطیوں کو قلم سے کاٹ کر درست کیا جا سکتا ہے لیکن تقریر میں اگر کچھ غلط ملت ہو جائے تو دوبارہ منھ کے اندر واپس نہیں جاتا پھر اس کے بعد لیڈروں کی طرح کہتے رہیئے کہ میرے بیان کو توڑ مڑوڑ کر پیش کیا گیا ہے۔اور اگر کوئی جیتی جاگتی منھ سے بولتی ہوئی سی ڈی پیش کر دے توکہہ دیجئے کہ ٹمپرنگ کی گئی ہے یہ میری آواز تو ہو ہی نہیں سکتی۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ نقلی بتیسی والے جب جوش میں بولنے لگتے ہیں تو ان کی بتیسی کا اوپری آدھا سیٹ تالو کی گرپ کو چھوڑ کر نیچے آکر دوسرے آدھے سیٹ سے ہم آغوش ہو جاتا ہے۔ اس وقت بولنے والے کی حالت دیکھنے کے لائق ہو تی ہے۔ منھ سے نکلنے والے الفاظ دونوں سیٹوں کی آپسی کشمکش میں الجھ جاتے ہیں اور منھ سے صرف پھرپھرانے کی آواز نکلتی ہے۔ اب تو آپ کو ہمارے کم بولنے کی ساری وجوہات سمجھ میں آہی گئی ہوں گی۔
یہ تو تھی ہمارے حالات کی کہانی اب ذرا ہماری ذاتی کہانی : ٤٢ سالہ زندگی میں بھی لوگ ہمیں نہیں جانتے سوائے میرے ادارے اور گھر کے افراد کے ،مگر جب سے اخباروں میں لکھنے کا موقع ملا تب سے اخبار کے قارئین نام سے ضرور جاننے لگے لیکن ذاتی طور پر وہ بھی ہم سے واقف نہیں ہیں۔ ایڈیٹر صاحب سے لوگ پوچھتے ہونگے کہ یہ محمد جاوید اقبال صدیقی کون ہیں؟ ایڈیٹر صاحب کیا جواب دیتے ہیں یہ تو انہوں نے مجھے بتایا نہیں لیکن مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے بارے میں پوچھنے والے کچھ اور بھی کہنا چاہتے ہیں لیکن مروّتاً یا لحاظاً آگے کے الفاظ کو دبا جاتے ہونگے۔ اب سُن لیں کہ محمد جاوید اقبال صدیقی کون ہیں اور اچانک کہاں سے ٹپک پڑے؟ ٹپکے بھی تو ایسے وقت جب خود ان کے ٹپک جانے کا وقت ہو رہا ہے۔ خدا ان کی عمر دراز کرے لیکن ہم کو تو نہیں لگتا کہ وہ زیادہ دن اردو ادب کی خدمت کر پائیں گے۔
اب آیئے ہم آپ کو بتائیں کہ ہمارے ٹپکنے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ بچپن سے ہی ہمارا رجحان ادب کی طرف تھا لیکن زندگی کے حالات نے گھسیٹ کر نوکری تک پہنچا دیا اور ہمارا سارا ادب بے ادب سا لگنے لگا۔ یعنی جانا کہیں اور تھا اور پہنچ گئے کہیں اور۔علم و ادب کے عنوان سے مضامین کو بہت سے لوگوں کی فرمائش پر ہم نے کتابی شکل تو دے دی ہے ۔ کاش! کہ یہ لوگوں کی فرمائیش اور میری دلی خواہش کسی طرح پوری ہو جائے کہ میں بھی صاحبِ کتاب ہو جائوں ۔ میں اپنے منھ میاں مٹھوبننا پسند نہیں کرتا لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اس کتاب کا ایک ایک صفحہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے حالانکہ میں اپنے مضامین سیدھی سادی عام فہم ایک ایسی زبان میں لکھتا ہوں جس کا معیاری ادب سے واسطہ رہا ہو۔ ساتھ ہی ساتھ ہم اردو زبان کے بھی مشکور ہیں جس نے ہمارے قلم کو چلنا اور بولنا سکھا دیا۔ جب اردو زبان کو لوگ صرف مسلمانوں کی زبان کہتے ہیں تو یقین جانیئے کہ بہت خوشی ہوتی ہے۔ جس زبان کا جنم ہی سارے مذاہب اور مختلف اقوام کو متحد کرنے کے لئے ہو تو خوشی سمیٹتے نہیں سمٹتیں۔
فطری طور پر ہر انسان شہرت پسند ہوتا ہے اور انسان ہونے کے ناطے ہم بھی اس علّت سے دور نہیں ہیں۔ لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ ہم نے شہرت حاصل کرنے کے لئے کبھی کام نہیں کیا۔ ہم جہاں بھی رہے وہاں یہ شہرت ہم کو اپنے عمل اور ہنر کے دم پر خود بخود ملتی چلی گئی۔ یعنی ہم نے شہرت حاصل کرنے کے لئے کام نہیں کیا بلکہ ہمارے کام نے ہی ہم کو شہرت دلائی۔ ادبی ذوق تو بچپن سے ہی تھا ، جوانی میں عروج کو پہنچا اور اب اس عمر میں بامِ عروج کو پہنچ رہی ہے۔ ادب کی خدمت تو ہم بہت کرنا چاہتے ہیں اور کتاب کی اشاعت بھی دلی خواہش بن گئی ہے، مگر دیکھئے کہ زندگی کے دن کتنے ہیں ؟ میری یہ خواہشیں پوری بھی ہو سکے گی یا نہیں؟ یہ تو اللہ رب العزت ہی جانتے ہیں۔لیکن انتظار اس دن کا ہے جس دن ہم دنیائے ادب کے لئے افسانہ بن کر رہ جائیں گے۔
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی