فیدل کاسترو کی کیوبا پر ان کی گرفت اتنی مضبوط ہوگئی تھی کہ ان کے دشمنوں نے سوچا کہ اگر کیوبا کو مارنا ہے تو فیدل کو مارنا ہوگا۔اسی لئے ان پر 638 مرتبہ قاتلانہ حملوں کی کوشش کی گئی۔ پھر بھی موت گولی، زہر اور دھماکہ خیز مواد کی روپ میں نہیں آئی۔عمر بھی طویل پائی اور موت بھی طبعی۔
اسائنس دانوں نے لیباریٹری میں ان کے قتل کے لئے جدید زہریلی دوائیاں بنائیں، مخالف سیاستدانوں نے سینکڑوں خفیہ ملاقاتیں کیں، منصوبے بنائے، مافیا سے مدد لی گئی، قریبی دوستوں اور ساتھیوں نے ان کے مارنے کے پیسے لئے حتی کہ محبت کو قتل کے آلے کے طور پر استعمال کیا گیا پھر بھی فیدل زندہ رہا۔
انہیں خود بھی یقین تھا کہ انہیں کوئی بھی مار نہیں سکتا۔
ان کی محبوبہ ماریتا لورنز جب زہریلی کیپسول سے انہیں مارنے میں ناکام ہوئی تو فیدل کاسترو نے اپنی پستول نکال کر انہیں تھما دی اور خود بیڈ پر دراز ہو کر انہیں گولی چلانے کا کہا۔
ماریتا نے ایک منٹ تک پستول تھام لی۔ ٹریگر پر پڑی انگلی ساکت ہوگئی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے،کہا ” میں تمہیں نہیں مار سکتی ”
فیدل اٹھے اور ہنس کر کہا ” نہیں تم مجھے نہیں مار سکتی۔ دراصل مجھے کوئی بھی نہیں مار سکتا“
بظاہر یہ ایک فلمی سین ہے، پر حقیقت میں ایسا ہی ہوا تھا۔سوال یہ ہے کہ کیا حقیقی زندگی میں بھی ایسا ممکن ہے؟شاید نہیں کیونکہ نہ ماریتا لیلی تھی اور نہ ہی فیدل مجنون۔بس اپنے پسٹل میں گولی نہیں رکھتا تھا کہ کہیں کسی کو مار ہی نہ دے، اپنی محبوبہ کو بھی وہی پسٹل دیا تھا ۔