تحریر: پروفیسررفعت مظہر
پاکستان میں اگر رشیدوں کی زباں بندی کردی جائے توقوم کی بھلائی کاغالب امکان ہے ۔پہلے شیخ رشید کی پیشین گوئیاںاور بڑھکیں سُن سُن کرطبیعت اوازار ہوتی رہی اوراب ٹھنڈے ٹھار پرویز رشید بھی آتش فشاںبنے بیٹھے ہیں ۔شیخ صاحب نے ایڑیاں اُٹھا اُٹھاکر مارو،مَرجاو ،جلاؤگھراؤکی بڑھکیںتو بہت لگائیں لیکن ”کَکھ”فائدہ نہ ہوا اور اب مایوسیوںکے سمندرمیں غوطے کھاتے شیخ صاحب کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ
اُڑتے اُڑتے آس کا پبچھی دُور افق میں ڈوب گیا
روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی
اُدھر میاںبرادران بھی شیخ صاحب کے ساتھ ”ہَتھ”کرگئے ۔شیخ صاحب نے آل پارٹیزکانفرنس میں شرکت کے لیے واسکٹ بھی سلوالی اورلال رنگ کا نیا مفلربھی خریدلیا لیکن نوازلیگ نے شیخ صاحب کو ”لفٹ”ہی نہیںکروائی اسی لیے شیخ صاحب ”کُرلاتے”رہتے ہیں کہ یہ آل پارٹی کانفرنس نہیںتھی کیونکہ اِس میں عوامی مسلم لیگ کی نمائندگی ہی نہیںتھی ۔ویسے نوازلیگ کی یہ ”حَرکت”ہرگز لائقِ تحسین نہیںکیونکہ عوامی مسلم لیگ ایک رجسٹرڈسیاسی جماعت ہے ،یہ الگ بات ہے کہ شیخ صاحب کی یہ سیاسی جماعت اتنی بڑی ہے کہ وہ اسے اپنی جیب میں سینت سنبھال کررکھتے ہیں تاکہ کسی کی نظرنہ لگ جائے۔
ویسے بھی پاکستان میں ڈاکولٹیروںکی کمی نہیں ،اگرکسی نے شیخ صاحب کی پارٹی چُرالی تو اُن کے پَلّے تو ”کَکھ”بھی نہیں بچے گا ،اسی لیے شیخ صاحب حفظِ ماتقدم کے طورپر اپنی پارٹی کو اپنی جیب میں ہی رکھتے ہیں ۔شیخ صاحب کی تو خیرنوازلیگ سے 7/51 تھی اِسی لیے اُنہیں اے پی سی میںمدعو نہیںکیاگیا لیکن کپتان صاحب تواُن کے ”بیلی”تھے ،وہ بھی شیخ صاحب کے بغیرہی اے پی سی میںچلے گئے حالانکہ بات بات پر ”مُنہ بسورنے”والے خاںصاحب حکمرانوںکو صاف صاف کہہ سکتے تھے کہ ”اگرشیخ رشیدنہیں تومیں بھی نہیں”۔شاید خاںصاحب نے سوچاہوگا کہ سانحہ پشاورکا زخم ابھی تازہ ہے اورفوجی قیادت کی آنکھیںبھی گہری ہوئی پڑی ہیں اِس لیے اے پی سی میں”نیویں نیویں” ہوکرجاناہی بہترہے ۔ویسے بھی اُن دنوںہمارے کپتان صاحب بھی”وَخت”میں پڑے ہوئے تھے کیونکہ اُنکی ریحام خاںسے شادی کی خبریںگرم تھیں اوراِن خبروںسے پریشان ریحام خاںہمارے کپتان کو ”تَڑیاں”لگا رہی تھی ۔اِس لیے ہوسکتاہے کہ عالمِ بَدحواسی میںکپتان اپنے ”بیلی”کو بھول گئے ہوں۔
دوسرے ”رشید”ہمارے اپنے وزیرِاطلاعات محترم پرویزرشید ہیں ۔وہ دھرنوںکے موسم میںتو برف میں لگے رہے اورہم شورمچاتے رہے کہ نوازلیگ کا میڈیاسیل خراٹے لے رہاہے لیکن جونہی خاںصاحب ”برفیلے”ہوئے پرویزرشیدصاحب کی گُل فشانی شعلہ فشانی میںبدل گئی اور اُنہوںنے یہاںتک کہہ دیاکہ ”عمران خاںپہلے فاسٹ باؤلنگ کرتے تھے اب ”سپِن باؤلنگ”پہ آگئے ہیں”۔اگر پرویزرشید صاحب کو سپِن باؤلنگ اچھی نہیںلگتی توکپتان صاحب کو دوبارہ فاسٹ باؤلنگ کرنے کی درخواست کی جاسکتی ہے ۔اگر ایساہوگیا توپھر حکومت کو اعتزازاحسن کی ”گُگلیوں”کے لیے بھی تیاررہنا چاہیے ۔پہلے کپتان صاحب ہر دودِن بعد اڑتالیس گھنٹوںکا الٹی میٹم دیتے تھے اب پرویزرشید صاحب بھی وہی کام کررہے ہیںجس سے تنگ آکرکپتان صاحب نے بھی کہہ دیا”مجھے پرویزرشید کا دماغی توازن ٹھیک نہیںلگ رہا”۔کالے ،سبز اورنیلے رنگوںسے بال رنگواکر سمارٹ لگنے کی کوشش کرنے والی شیریںمزاری بھلاکسی سے پیچھے کیوںرہتیں۔
اُنہوں نے پرویزرشید صاحب کی علمیت کا بیچ چوراہے بھانڈاپھوڑتے ہوئے کہہ دیا ”اگر پرویزرشید کوحلقہ 122 کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پڑھنی نہیںآتی توکسی دوسرے سے پڑھوالیں یاپھر خاموش رہیں”۔حلقہ 122کا معاملہ بھی بڑادلچسپ ہے ۔ایک عدالت اندر تحقیقات کررہی ہے اور دوعدالتیں باہر ۔خاںصاحب تحقیقاتی رپورٹ کوبنیاد بناکر ہرروز پریس کانفرنس میںیہ کہہ دیتے ہیںکہ ”ہم جیت گئے”جبکہ دَر جوابِ آںغزل پرویزرشید صاحب اُن کوچیلنج کردیتے ہیں اور ”جج”بیچارے پریشان کہ ”کَیدی مَنیے تے کَیدی نہ مَنیے”۔اب ہمارے سپیکرایازصادق صاحب بھی میدان میںکود پڑے لیکن شکرہے کہ اُنہوںنے اپنی ”سپیکری”کا بھرم رکھتے ہوئے قابلِ قبول بیان ہی جاری کیا۔وہ کہتے ہیں”عمران خاں کی گزشتہ روزہونے والی پریس کانفرنس سے لگتاہے کہ میںنے اُنہیںدِن میںتارے دکھادیئے ہیں ۔جسٹس عمران خاںنیازی نے اپنے حق میںفیصلہ سنادیا ۔مجھے جسٹس کاظم علی کے فیصلے کا انتظارہے”۔جنابِ پرویزرشیدبھی اگرعدالتی فیصلے کا انتظار کرلیں تویہ حکومت کے حق میںہی بہتر ہوگا کیونکہ خاںصاحب کے پاس توکھونے کوکچھ نہیں ،جو نقصان ہوگا حکومت کاہی ہوگا۔
ویسے توہمارے ایک ”رشید”ایم کیوایم کے محترم رشیدگوڈیل بھی ہیں جوہر وقت تڑپتے ،پھڑکتے اورمچلتے رہتے ہیںلیکن اُنکی جماعت میںتو ”آوے کاآوا”ہی تلواریں سونت بیٹھا رہتاہے اِس لیے رشیدگوڈیل کوقابلِ معافی قراردیا جاسکتاہے البتہ جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ تحریکِ انصاف کے میاںمحمودرشیدکو شاید افہام وتفہیم راس نہیںآتی اسی لیے اُنہوںنے یہ بیان داغ دیا کہ ”عوام بھوک ،گیس ،لوڈشیڈنگ اورمہنگائی کے عذاب میںمبتلاء ہیںاور وزیرِاعظم نے غیرملکی دَوروںکی آڑ میںقومی خزانے کوچالیس کروڑ کاٹیکہ لگادیا ۔میاں محمودالرشید کافرمایا ”مستند”لیکن وزیرِاعظم اِس کے عوض کچھ نہ کچھ لے کربھی آئے البتہ تحریکِ انصاف نے تو ”نیاپاکستان” بنانے کے شوق میں قوم کواتنے پیسوںکے صرف گانے ہی سنادیئے اور نتیجہ کیانکلا؟”ساڈے گھر آئی بھرجائی”۔اب 18 جنوری کوپھر ہلّا گُلا شروع ہونے جا رہاہے اورقوم خوفزدہ کہ کہیںیہ خاںصاحب کی طرف سے تیسری شادی کا عندیہ نہ ہو۔
سانحہ پشاورکے بچوںکے ساتھ اظہارِیکجہتی کے لیے خاںصاحب 32 گاڑیوںکے پروٹوکول کے ساتھ آرمی پبلک سکول پہنچے جس کا بہت بُرا منایاگیا ۔خاںصاحب نے فرمایاکہ پروٹوکول کی گاڑیاںتو صرف 6 تھیں،باقی سب وزراء کی گاڑیاںتھیں جو محترمہ ریحام خاںکی پہلی دفعہ پشاور آمدپر استقبال کے لیے آئے تھے ۔بجاارشاد لیکن ریحام خاںصاحبہ توخود بیس گاڑیوںکے پروٹوکول کے ساتھ آرمی پبلک سکول کی شہیدپرنسپل کے گھرتعزیت کے لیے پہنچیں ،اِس پروٹوکول کا کیاجواز تھا؟۔خاںصاحب سے استدعاہے کہ پہلے ریحام خاںصاحبہ کو”خاتونِ اوّل”بن لینے دیںپھر جی بھرکے اُن کے پروٹوکول کا اہتمام کرتے رہیں۔ویسے بھی جب تعزیت کے لیے جاتے ہیںتو تزک واحتشام کے ساتھ نہیں ،سادگی کے ساتھ ہی جانابہتر ہوتاہے۔
شہداء فورم کے احتجاج پر خیبرپختونخوا کے وزیرِاطلاعات مشتاق غنی نے کہا”شہداء فورم نوازلیگ ،اے این پی اور دیگرلوگوں کی تنظیم ہے ۔یہ بدمعاشی کی سیاست کوفروغ دے رہے ہیں ،ہم آئندہ ایسانہیں ہونے دیںگے ”۔شہداء فورم نے فوری طورپر تردید کرتے ہوئے کہہ دیاکہ احتجاج کرنے والوں میںسے کسی ایک کابھی کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیںتھا ۔تحریکِ انصاف نے یہ تو کہہ دیا کہ وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک نے ہرگزیہ نہیںکہا کہ ”کیایہ تمہارے باپ کاسکول ہے”لیکن مشتاق غنی نے تو سب کچھ میڈیا کے سامنے کہا،کیا شہداء کے والدین کو”بدمعاش”کہنے پراُن کی جواب طلبی ہوئی؟؟؟۔
تحریر: پروفیسررفعت مظہر