کراچی…….مشتاق احمد سبحانی……پاکستانی فلمی صنعت جو1960 اور1970کی دہائیوں کے دوران اپنا سنہری دور گزارنے کے بعد مختلف وجوہات کی بناء پر زوال کا شکار ہوچکی تھی اور گزشتہ کئی برسوں سے احیا کی جدو جہد کررہی تھی بالآخر2015 میں اپنی کھوئی ہوئی منزل پانے میں کامیاب ہوگئی۔گزرے ہوئے سال کے دوران 43فلمیں نمائش کے لئے پیش کی گئیں۔ یہ تعدادگزشتہ سات سالوں میں سب سے زیادہ ہےاور کامیاب فلموں کی تعدادبھی پچھلے پندرہ برسوں کی نسبت زیادہ ہے۔اگرچہ 2007سے قبل 50اور60کے لگ بھگ فلمیں بنائی جارہی تھیں مگر کامیاب فلموں کا تناسب کم تھا اور اُردو زبان میںبہت کم فلمیں تیار کی جارہی تھیں۔2001میں 21 اُردوفلمیں نمائش پذیر ہوئیںمگر اس کے بعدیہ تعداد کم ہوتی گئی اور 2014تک ان کی سالانہ اوسط9 تھی۔
سن2010میں صرف ایک فلم ریلیز ہوئی اور 2012ء میں کوئی بھی اُردو فلم نمائش کے لئے پیش نہیں کی جاسکی۔دوسری جانب پنجابی فلموں کی تعداد میں بھی بتدریج کمی ہوتی گئی جبکہ پشتو فلموں کی تعداد میںاضافہ ہونے لگا۔اب تیرہ سال بعد پہلی مرتبہ اُردو فلموں نے تعداد کے لحاظ سے پنجابی اور پشتو فلموں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔2015ءکے دوران ریلیز ہونے والی 43فلموںمیں اُردو کی تعداد 20تھی جبکہ 18پشتو اور صرف پانچ پنجابی فلمیں نمائش پذیر ہوئیں۔ان تمام فلموں میں 29لاہور میں اور 14فلمیں کراچی میں بنائی گئیں۔
کراچی میں بنائی جانے والی تمام فلمیں اردو زبان میں تھیںجبکہ اس سال کی تمام پشتو اور پنجابی فلمیںلاہور میں تیار کی گئیں۔ ان کے علاوہ لاہور میں چھہ اردو فلمیں بھی بنائی گئیں جو سب کی سب ناکام ہوئیں تاہم تمام پنجابی فلمیں کامیابی سے دور رہ گئیںتاہم کئی پشتو فلمیںاپنے محدود سرکٹ کے باوجود باکس آفس پر کامیاب رہیں۔
پشتو فلموںکے سرکٹ میںخیبر پختونخوا کے پُورے صوبے کے علاوہ کوئٹہ اور کراچی بھی شامل ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات میں بھی ان فلموں کی مارکیٹ موجود ہے۔سالِ گزشتہ کے دوران اُردو کی جو 20 فلمیںریلیز ہوئیں ان میںنصف تعداد نے ایک کروڑ روپے سےزائد کا بزنس کیا۔حیرت انگیز طور پر فلمجوانی پھر نہیں آنی نے پاکستان میں 39کروڑ کا بزنس کیاجو ایک ریکارڈ ہےجبکہ اس سال ملک بھرمیںریلیز ہونے والی کوئی بھی پاکستانی، بھارتی یاکوئی اور غیر ملکی فلم اتنا بزنس نہیں کرسکی۔دیگرملکی فلموں میں رانگ نمبر نے پندرہ کروڑ، بِن روئےدس اعشاریہ85کروڑ، کراچی سے لاہور نے دس کروڑ، جلیبی نےایک اعشاریہ سات کروڑ اینی میٹڈ فلم تین بہادر نے63اعشاریہ چھ کروڑ،منٹو نےصفر تین اعشاریہ پانچ کروڑ،دیکھ مگر پیار سے نےتقریباً سوا دو کروڑ اور مور نےایک اعشاریہ پچاسی کروڑ روپے کا بزنس کیا۔اس لحاظ سے سال 2015 بیشتر فلم سازوں کے لئے منافع بخش ثابت ہوا۔فلم بِن روئےواحد پاکستانی فلم تھی جو ملک بھر میں ریلیز ہونے کے علاوہ متحدہ عرب امارات، کئی یوروپی ممالک اور امریکہ میں بیک وقت نمائش کے لئے پیش ہوئی ۔ اس کے علاوہ اسے بھارت کے 82 سنیما گھروںمیں بھی ریلیز کیا گیا۔فلم رانگ نمبر کا پریمیئرمتحدہ عرب امارات اور کراچی سے لاہور کا پریمیئرہالی وڈ میں بھی ہوا۔پاکستان کی پہلی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم سازشرمین عبید چنائےکو پاکستان کی اولین اینی میٹڈ فلم بنانے کااعزاز حاصل ہوا۔ ان کی فلم تین بہادر اگرچہ بچوں کے لئے بنائی گئی تھی مگر اسے بڑوں نے بھی بے حد پسند کیا۔دو پاکستانی فلموں مور اور منٹو کو ناقدین اور سماجی حلقوںکی جانب سے بےحد پذیرائی حاصل ہوئی۔سعادت حسن منٹوپر بنائی جانے والی بائیوپک منٹو کو بُو سان فلم فیسٹول کے علاوہ بھارت میںکولکتہ اور دہلی کے فلمی میلوں میں بھی دکھایا گیا اور ہر جگہ اسے بے انتہا سراہا گیاجبکہ مور کو آسکر ایوارڈ کے لئے پاکستان کی جانب سے نامزد کیا گیا۔الغرض سال 2015 پاکستانی فلموں کے لئے بے حد کامیاب رہا۔ اس لحاظ سے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت کا مکمل طور پر احیا ہوچکا ہےاور اب ملکی سنیما ترقی کی جانب گامزن ہے۔ توقع ہے کہ نیا سال پاکستانی فلمی دنیا کے لئےمزید بہتر ثابت ہوگا جس کا اندازہ یکم جنوری کو ریلیز ہونے والی فلم ہو من جہاں کی مقبو لیت سے ہو رہا ہے۔