تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
علی سفیان آفاقی 22 اگست 1933 ء کو بھارت میں بھوپال کے شہر سیہور میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 14 سال کی عمر میں 1947 ء میں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آئے اور لاہور میں سکونت اختیار کی۔علی سفیان آفاقی نے بھوپال اور میرٹھ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ بی اے آنرز کرنے کے بعد 1951ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے اخبار ”تسنیم” سے عملی صحافت کا آغاز کیا۔
جب یہ اخبار بند ہو گیا تو ہفت روزہ چٹان، اقوام، آثار، میں خدمات انجام دیں۔ جس اخبار سے ان کو شہرت ملی روزنامہ آفاق تھا، علی سفیان آفاقی 1953 ء میں روزنامہ آفاق سے وابستہ ہوئے ۔ایک واقعہ نے ان کو اور اخبار کو راتوں رات مشہور کر دیا ہوا ،یہ کہ شوکت حسین رضوی نے اداکارہ نگت کو اپنی فلم میں کام کرنے کے لیے لاہور بلایا۔اس فلم میں نورجہاں ہیروئن تھیں۔ کچھ ہی دنوں میں کچھ لوگوں نے نورجہاں کو بھڑکایا کہ نگہت شوکت رضوی پر ڈورے ڈال رہی ہے۔
نور جہاں نے اْسی وقت سٹوڈیو جا کر نہ صرف نگہت سلطانہ کو گالیاں دیں، بلکہ مارا بھی اور سٹوڈیو سے بھی نکال دیا۔علی سفیان آفاقی نے نگہت سلطانہ کا تفصیلی انٹرویو کیا ،جو دوسرے دن آفاق میں پورے صفحے پر شائع ہوا۔پہلے تو مالکان ناراض ہوئے ،لیکن جب انٹرویو کی وجہ سے اخبار کی دس ہزار سے زائد کاپیاں مزید شائع کرنی پڑیں تو اخبار میں فلم ایڈیشن کی باقاعدہ ابتدا کی گئی اور علی سفیان کو اس کا انچارج بنا دیا گیا۔ روزنامہ آفاق سے وابستگی کی بنا پر ہی علی سفیان کے نام کے ساتھ آفاقی کا اضافہ ہوا۔
فلمی صفحہ پاکستان میں سب سے پہلے انہوں نے روزنامہ آفاق میںشروع کیا تھا۔اِسی زمانے میں اس اخبار میں سعادت حسن منٹو بھی مختلف شخصیات کے خاکے تحریر کیا کرتے تھے ،بعد میں یہ خاکے سعادت حسن منٹو نے ”گنجے فرشتے ” کے نام سے شائع کروائے۔آفاقی نے 1957 ء میں فلموں کے لیے باقاعدہ کام کی، ابتدا کی اور فلم ٹھنڈی سڑک کی کہانی لکھی تھی یہ فلم کامیاب ہوئی۔ جنرل ایوب خان کا مارشل لا 1958 ء لگا یااور اخبارات پر پابندیاں لگیں تو آفاقی صحافت چھوڑ کر مکمل طور پر فلموں کی طرف آ گئے۔
ڈائریکٹر اور فلم ساز حسن طارق کیساتھ ان کی جوڑی نے فلم انڈسٹری کو کئی لازوال فلمیں دیں۔ 1965ء میں حسن طارق کیساتھ ملکر بطور فلم ساز رْجحان ساز فلم کنیز بنائی، جس کی کہانی انہوں نے لکھی تھی۔ اس کے بعد ایک اور فلم ”میرا گھر میری جنت”بنائی۔ فلم”سزا” انہوں نے اکیلے بنائی جس میں جمیل اور روزینہ کی جوڑی کو متعارف کرایا۔ 1972ء میں بطور مصنّف، ہدایت کار اور فلم ساز فلم ”آس”بنائی جس کے بعد بے شْمار فلموں کی کہانیاں لکھیں۔
انھوں نے فلم ساز، ہدایت کار، مکالمہ نگار اور سکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے 38فلمیںدیں۔انھوں نے1989 ء لاہور سے ماہنامہ ہوش ربا ڈائجسٹ نکالاتھا پھر اسے بند کر دیا اورہفت روزہ فیملی میگزین سے بطور مدیر وابستہ ہوئے ۔مرحوم آخر دم تک ہفت روزہ فیملی میگزین کے مدیر تھے ۔ ادارہ ”نوائے وقت” کے میگزین ”فیملی” کو تقریباً 20سال تک ایڈٹ کرتے رہے۔
انھوں نے 1990ء کراچی سے نکلنے والے جریدے ماہنامہ سرگزشت میں ‘فلمی الف لیلہ’ کے نام سے پاکستان کی فلمی دنیا کا احوال لکھنا شروع کیا۔ ان کی وفات تک اس سلسلے کی ڈھائی سو سے زیادہ اقساط شائع ہوچکی تھیں۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بیشتر لوگ یہ ڈائجسٹ صرف آفاقی کی تحریروں کو پڑھنے کے لیے ہی خریدا کرتے تھے۔ ماہنامہ سرگزشت میں فلمی الف لیلہ کی ہر قسط کے تعارف میں یہ شعر لکھے ہوتے تھے۔ منیر نیازی کے یہ اشعار علی سفیان آفاقی کو بہت پسند تھے۔
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
علی سفیان آفاقی نے کئی سفرنامے اور کتابیں بھی لکھیں جو خاصی مقبول ہوئیں۔ انہوں نے 28کے قریب کتابیں لکھیں،جن میں فلمی الف لیلیٰ سب سے زیادہ مقبول ہے۔ وہ فلمی دْنیا کا انسائیکلوپیڈیا تھے ۔ان کے سفرناموں میں یورپ کی الف لیلہ، طلسمات فرنگ، ذرا انگلستان تک، نیل کنارے ، عجائباتِ فرنگ، امریکہ چلیں، ذرا انگلستان تک، کمال با کمال اور موم کا آدمی شامل ہیں۔
انھیں 8 بار نگار ایوارڈ چھ بار گریجویٹ ایوارڈ اور ایک ایک بار فلم کریٹک اور مصور ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، لیکن ان سب سے بڑا ایوارڈ وہ عزت ہے جو انھیں ان فلموں کے دیکھنے والوں سے ملی۔ ان کی مشہور فلمیں درج ذیل ہیں ۔کنیز، میرا گھر میری جنت، سزا، آس، آدمی، آج کل، فرشتہ، جوکر، قتل کے بعد، ایک ہی راستہ، آسرا، عدالت، شکوہ، دیوانگی، فاصلہ، آرپار، کبھی الوداع نہ کہنا، نیا سفر، میں وہ نہیں، عندلیب، میرے ہم سفر، مہربانی، گمنام، بندگی، کامیابی، ہم اور تم، پلے بوائے ، مس کولمبو، دامن اور چنگاری، دیور بھابھی، دل ایک آئینہ، محبت، الزام، انتظار، انسانیت، دوستی، نمک حرام، بیٹا، معاملہ گڑبڑ ہے ، ویری گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ، اجنبی اور صائقہ۔ ممتاز صحافی، مصنف، فلم ساز، ڈائریکٹر علی سفیان آفاقی 82 سال کی عمر میں 27 جنوری 2015 کو انتقال کر گئے۔
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال