قرآن اپنے قارئین کو کائنات کے اسرار و رموز پر سوچنے اور وہ بھی سائنٹیفک انداز میں غور و تدبر کی دعوت دیتا ہے۔
لاہور: (دنیا نیوز) میں ان مسلمان علماء سے اتفاق نہیں کرتا جو قرآن پاک کی آیات میں سے سائنسی فارمولے تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ قرآن پاک اور دوسری الہامی کتابیں، سیاسی اور فوجی نظاموں کی ہیئت ترکیبی بتانے یا ایٹم بم کا نسخہ سمجھانے کی بجائے انسانوں کو اخلاقی لحاظ سے ایک بہتر زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتی ہیں۔ اعلیٰ قدروں کا شعور پھیلاتی ہیں اور حقوق اللہ سے زیادہ حقوق العباد پر زور دیتی ہیں۔ قرآن کی ایک ادنیٰ خصوصیت یہ ہے کہ زندگی کے مسائل کی طرف اس کا رویہ فطرتِ انسانی اور حقائق سے قریب تر ہے۔ جدید زبان میں کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اپنے قارئین کو کائنات کے اسرار و رموز پر سوچنے اور وہ بھی سائنٹیفک انداز میں غور و تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ مطالعۂ قران کے دوران ایسے کئی اشاروں کی طرف خاص طور پر توجہ مبذول ہو جاتی ہے جو کسی نہ کسی سائنسی انکشاف کی تائید کرتے معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً گزشتہ چند سال سے مغرب کے سائنسدان اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ اس کائنات میں ہر چیز اپنا ایک عکس رکھتی ہے لیکن ہماری آنکھوں کی ساخت ایسی ہے کہ اس کی ظاہری بینی کی قوت اس عکس کو دیکھ نہیں سکتی تاہم یہ عکس اس کائنات میں موجود ہوتا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ انسانی آنکھ کو نظر آنے والی پوری دنیا کا ایک عکس موجود ہے۔ پرانے فلسفیوں کا بھی خیال تھا کہ اس مادی دنیا کے علاوہ تصورات کی غیر مرئی دنیا بھی پائی جاتی ہے جس کا پر تو انسان کی سیرت و کردار اور فکر و شعور پر پڑتا رہتا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب حیات بعد المموت کے قائل ہیں اور اب سائنس دانوں نے ایسے کیمرے بھی ایجاد کر لئے ہیں جو کسی چیز یا جسم سے خارج ہونے والی لہروں کی مدد سے اس چیز یا جسم کی خاص کیفیت کو تصور میں ڈھال سکتے ہیں۔ گویا مختلف مذاہب اور خصوصاً قرآن کا یہ کہنا کہ انسان کے اقوال اور اعمال کا ریکارڈ اللہ کے پاس محفوظ رہے گا اور اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا بھی موجود ہے جو ظاہری آنکھ کو نظر نہیں آتی۔ قرآن کی بعض آیات اور ایک خاص وقت میں کسی سائنسی انکشاف کے مفہوم میں معناً یا مجازاً مماثلت کی وجہ سے قرآن کو سائنسی کتاب ثابت کرنے پر کمر نہیں باندھ لینی چاہیے کیونکہ نئے نئے سائنسی انکشافات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ آج کے سائنسی اصول نامکمل اور ناقص ثابت ہوتے رہیں گے اور ان انکشافات کا قرآن یا کسی دوسری الہامی کتاب کی آیات پر منطبق کرنے کا شغل ان کتابوں میں پوشیدہ پیغام کی دسعتوں کو محدود کر دینے کے مترادف ہو گا۔ سمجھنے اور غور کرنے والی بات ایک ہی ہے کہ قرآن شعورو آگہی کے سفرِ مسلسل میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ (