پاکستانی حکومت نے نئی دہلی پر الزام عائد کیا ہے کہ کشمیر کے متنازعہ علاقے کے مختلف سیکٹرز میں کنٹرول لائن کے پار سے بھارتی دستوں کی فائرنگ اور گولہ باری کے نتیجے میں دو پاکستانی فوجی ہلاک اور نو زخمی ہو گئے ہیں۔
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بدھ انتیس ستمبر کے روز ایک مقامی ٹی وی چینل کو بتایا کہ بھارتی دستوں نے کشمیر میں پانچ سیکٹرز پر فائرنگ کی، جس کا پاکستانی فوج کی طرف سے بھرپور جواب دیا گیا۔ خواجہ آصف نے تاہم اس بارے میں کوئی وضاحت نہ کی کہ آیا پاکستانی دستوں کے ردعمل میں کوئی بھارتی فوجی ہلاک یا زخمی بھی ہوا۔
دوسری طرف بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس کے دستوں نے ’سرجیکل اسٹرائیکس‘ کی ہیں، جن میں ’دہشت گردوں اور ان کے مدد گاروں‘ کو نشانہ بنایا گیا۔ اس بھارتی فوجی دعوے کو پاکستانی فوج اور حکومت نے سراسر غلط قرار دیا ہے۔کنٹرول لائن پر اس ہلاکت خیز واقعے کے بعد سیاسی طور پر بھارت کے ساتھ مکالمت کے حامی پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ’پُر امن ہمسائے کی پالیسی‘ کو پاکستان کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔دو پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پورے پاکستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ پر کئی اعلیٰ سابق فوجی افسران یہ مطالبے کرتے ہوئے دکھائی دیے کہ اسلام آباد حکومت کو اس واقعے پر سخت ردعمل ظاہر کرنا چاہیے۔ کئی ریٹائرڈ فوجی افسران نے ملکی حکومت کی مبینہ طور پر بھارت نواز پالیسیوں پر بھی تنقید کی جبکہ متعدد سیاسی رہنماؤں نے کشمیر میں پاکستانی سپاہیوں کی ہلاکت پر مذمتی بیانات بھی جاری کیے۔ پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب کی لاہور میں صوبائی اسمبلی میں تو آج بدھ کو بھارت کے خلاف ایک مذمتی قرارداد بھی جمع کرا دی گئی جب کہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت نے ملک کے بھرپور دفاع کا عزم ظاہر کیا ہے۔ پاکستان نے اس بارے میں بھی خبردار کیا ہے کہ کسی بھی ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
کئی تجزیہ نگاروں کی رائے میں موجودہ صورت حال دونوں ممالک کے عوام کے لیے بہت پریشان کن ہے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد نے کنٹرول لائن پر فائرنگ کے تازہ ترین واقعے پر اپنے ردعمل میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’صورت حال بہت خطرناک ہے۔ ابھی صرف جھڑپیں ہوئی ہیں۔ لیکن کشیدہ حالات میں کوئی ایک غلطی بھی بڑی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر توصیف احمد کے مطابق اسلام آباد اور نئی دہلی کے مابین تناؤ کے پس منظر میں سارک سربراہی کانفرنس کا التوا اور سرحدی کشیدگی کسی کے بھی حق میں نہیں۔ دونوں ممالک کے امن پسند لوگوں کو کسی بھی ممکنہ جنگ کی مخالفت کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی برادری کو بھی فوری طور پر مداخلت کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کو مذاکرات پر راضی کرنا چاہیے۔‘‘
دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر ریٹائرڈ شوکت قادر کے خیال میں جنوبی ایشیا کے ان دونوں ہمسایہ ملکوں کے مابین جنگ کا خطرہ نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں جھڑپیں ہوں گی، جنگ نہیں ہوگی۔ بھارت نے کشیدگی کو اتنی ہوا دے دی تھی اور اتنی بھڑکیں ماری تھیں کہ اسے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔ لہٰذا نئی دہلی نے ایسا کیا۔ پاکستان نے بھی بھرپور جواب دیا ہوگا۔ تاہم بھارت اس بات کا اعتراف تو نہیں کرے گا کہ اسے کتنا نقصان ہوا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں شوکت قادر نے کہا، ’’بھارت پاکستان کو کوئی سبق نہیں سکھا سکتا کیونکہ پاکستان بھی بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عالمی برادری بھی نہیں چاہتی کہ خطے میں کوئی کشیدگی ہو۔ امریکا نے پہلے ہی بھارت کو ٹھنڈا ہو جانے کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن پاکستان ایسی صورت میں مذاکرات کی بات نہیں کر سکتا کیونکہ ایسی آمادگی کو پاکستان کی کمزوری سے تعبیر کیا جائے گا۔‘‘
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’جب بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تھا تو ایک بھارتی پروفیسر نے پاکستان کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کا ذکر کیا تھا۔ میرے خیال میں بھارت پاکستان کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ اس کے علاوہ نئی دہلی ایرانی اور افغان سرزمین کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ وہ پاکستان مخالف عناصر کے ذریعے تخریب کاری بھی کرا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکیاں بھی دیتا رہے گا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر طلعت نے کہا، ’’اگر جنگ ہوتی ہے تو پاکستان کو تو نقصان ہوگا۔ ہمارے ہاں ’سی پَیک‘ پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ وہ متاثر ہوگا۔ لیکن بھارت کو ہم سے زیادہ نقصان ہوگا کیونکہ وہ بڑی منڈی ہے اور کشیدہ صورت حال میں سرمایہ کاری رک جائے گی، جس سے نئی دہلی کو بھی بہت زیادہ نقصان ہوگا۔‘‘