بہت ہی کم لوگوں کو یہ علم ہو گا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے کوئی اسی برس پہلے ایک ایسا فرعون بھی ہو گزرا ہے، جسے تاریخ انسانی کے پہلے موحد بادشاہ، نامور فلسفی اور انسان دوستی کے اولین علم بردار کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ آمن حوتپ چہارم کے نام سے مصر کے تخت پر جلوہ افروز ہوا لیکن اس فرعون نے چار سال حکومت کرنے کے بعد اپنا نام تبدیل کرکے آخناتون رکھ لیا اور اپنا مذہب بھی تبدیل کر لیا۔ فرعون آخناتون کا تعلق مصر کے اٹھارہویں حکمران خاندان سے تھا, جو تاریخ انسانی کے چند نامور ترین خاندانوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے مصر پر ڈھائی سو سال حکومت کی اور یہی مصری تہذیب کے انتہائی عروج کے ڈھائی سو سال تھے۔کچھ لوگ آخناتون نامی اس فرعون کو حضرت یوسف علیہ السلام سے منسلک کر دیتے ہیں جو ایک تاریخی غلطی ہے, کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام اور آخناتون کے ادوار میں بہت زیادہ فرق پایاجاتا ہے۔ اکثر مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا دور 2000 قبل مسیح سے 1600 قبل مسیح کے درمیان کا ہے۔ اُس دور میں مصر پرحکمرانوں کا بارہواں خاندان حکومت کر رہا تھا۔ مورخین کا ماننا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام بارہویں خاندان کے بادشاہ سیسوٹرس دوم کے عہد میں مصر میں لائے گئے لیکن آپ علیہ السلام نے سیسوٹرس سوم کے دور میں عروج حاصل کیا، سیسوٹرس سوم کا شمار مصر کے بڑے فاتحین اور قابل ترین حکمرانوں میں ہوتا ہے۔71 سال مصر میں رہنے کے بعد جب آپ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو وہ دور سیسوٹرس سوم کے بیٹے آمن مہات سوم کا تھا۔بابئل کے مطابق بھی حضرت یوسف علیہ السلام بنی اسرائیل کے مصر سے خروج سے 430 سال قبل مصر تشریف لے گئے تھے جبکہ آخناتون نامی فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام سے چند ہی دہائیاں قبل گزرا ہے۔ کہنے کو تو آخناتون نے محض چھبیس سائیس سال کی عمر پائی اور صرف سترہ برس حکومت کی، لیکن اس کی شخصیت کو تاریخ عالم میں جو اہمیت حاصل ہے وہ دنیا کے چند ہی حکمرانوں کو نصیب ہو سکی ہے۔ آخناتون نے جب حکومت سنبھالی تو مصر دنیا کی سب سے بڑی پاپائیت کے پنجے میں گرفتار تھا۔ لاتعداد دیوی دیوتا مصریوں پر مسلط تھے اور ان کے پجاری تو اس قدر صاحب اقتدار تھے کہ فرعون وقت بھی کسی حالت میں ان سے ذرا سی بھی پرخاش مول لینے کو تیار نہ تھا۔ مصر اس دور کی سب سے بڑی طاقت تھا، اسی لیے دنیا کے ہر گوشے سے یہاں لڑکیاں، غلا م اور کنیزیں لائی جاتیں، یہ لوگ اپنے ساتھ اپنے دیوی دیوتاؤں کو بھی لاتے چنانچہ مصر اس وقت بت پرستی اور شرک کا سب سے بڑا مرکز تھا۔دوسری طرف آخناتون اپنی پیدائش سے ہی بہت کمزور اور بے ڈول سا بچہ تھا، اسے مرگی کے دورے بھی پڑا کرتے تھے۔ماں باپ اپنے اکلوتے بیٹے کی جسمانی ساخت پر دن رات کڑھتے رہتے۔ جس محل میں آخناتون نےآنکھیں کھولیں اور جہاں وہ پلا بڑھا، وہ دنیا کےخوبصورت ترین محلات میں سے تھا۔ اس کے باوجود وہ اپنی اعصابی کمزور اور بے ڈھنگی جسم پر بچپن سے ہی ملول رہتا، باغوں میں بیٹھے پرندوں کی چہچہاہٹ سنتا، تالاب میں مچھلیاں تیرتے دیکھتا، یا پھر سردیوں کی دھوپ میں تتلیوں کے پیچھے دوڑتا۔شہزادے کی اس تنہائی پسندی اور فطرت کی اس قربت نے اسے ایک فلسفیانہ ذہن عطا کیا۔ اس کی روح بے شمار خود ساختہ خداؤں سے بھٹک کر خالق حقیقی کی تلاش میں بے چین رہنے لگی۔ دوسری طرف اس کے بوڑھے باپ یعنی فرعون وقت کو اپنے بیٹے آخناتون کی شادی کی فکر تھی۔ سو اس نے آخناتون کی شادی متانی کے آریائی حکمران کی بیٹی سے کر دی۔ یہی لڑکی آگے چل کر “ملکہ نفرتیتی” کہلائی۔شہزادہ آخناتون جب نو برس کا تھا تبھی اس کے باپ نے آخناتون کو اپنی جگہ فرعون نامزد کردیا لیکن آخناتون کو حکومت و بادشاہت میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی وہ حسب معمول اپنا وقت باغات اور کھلی فضاؤں میں گزارا کرتا۔ شروعات میں تو انتظام حکومت پہلے اس کا باپ اور بعد میں اس کی ماں چلاتے رہے لیکن پندرہ سال کی عمر کو پہنچ کر آخناتون نامی اس لڑکے نے ایک خاص فیصلہ کیا۔ اُس نے بدمزاج اور نشۂ اقتدار میں بدمست پجاریوں اور انکے بتوں کو ٹھکراتے ہوئے صرف ایک خدا جس کا نام اُس نے آتن رکھا تھا کی عبادت کا حکم جاری کیا۔ یہیں اس نے اپنا نام آمن حوتپ چہارم سے بدل کر آخناتون یعنی آتن کا بندہ رکھا۔ اُس نے ناصرف بتوں کو ٹھکرایا بلکہ اپنے خدا آتن کی کوئی مورتی یا تصویر بنانے کی اجازت بھی نہ دی۔باقی سب تو ٹھیک تھا لیکن مصریوں کو اپنے محبوب ترین دیوتا اوزائرس پر پابندی گوارا نہ تھی۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ جب مصریوں کے ہزاروں سال پرانے اس دیوتا اوزائرس کو چیلنج کیا گیا۔ بہت سے کاہنوں اور پجاریوں نے اعلانیہ بغاوتیں کیں لیکن آخناتون کے قابل سپہ سالار حورم حب نےان سب کےہوش ٹھکانے لگا دیے۔ آخناتون کا اگلا بڑا فیصلہ دار الحکومت کی تبدیلی تھی۔ اس نے موجودہ قاہرہ سے کوئی 160 میل دور نئے دار الحکومت کی تعمیر کا حکم دے دیا۔ اس نئے شہر کا نام اُس نے اپنے دیوتا کے نام پر اختاتن رکھا جو آج تل العمارنہ کے نام سے مشہور ہے ۔سترہ برس کی حکومت کے بعد اس کی صحت جواب دے گئی۔ آخناتون کے آخری ایام بڑے ہی المناک اور کرب انگیز تھے، اُسے خود بھی یہ احساس تھا کہ وہ اپنے مشن میں ناکام رہا ہے۔ آخناتون اپنی تمام نوازشات کے باوجود امراء کا خلوص حاصل نہ کر سکا تھا جبکہ مذہبی انقلاب کے باعث و ہ پجاریوں اور عوام میں بھی خاصا غیر مقبول تھا۔سیاسی اورعسکری لحاظ سے اس کا عہد مصر کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ اُس نے تلوار اُٹھا کر ایک کونے میں رکھ دی تھی، جب اس کے کمانڈر خطوط بھیج کر اس سے مدد اور کمک طلب کرتے تو یہ فرعون ان پر عمل کرنے کے بجائے حمد یا مناجات میں مصروف رہتا۔ اُس نے اختاتن نامی شہر کی تعمیر کے وقت حلف اُٹھایا تھا کہ و ہ کبھی ‘‘آتن’’ کے مستقر سے باہر قدم نہیں رکھے گا، آخناتون نے یہ عہد مرتے دم تک نبھایا۔ چنانچہ نظم و نسق کی حالت اور اہل کاروں کی کارگزاری دیکھنے کے لیے اُس نے کبھی دوسرے علاقوں کے دورے نہیں کیے۔ اسے اپنے ملک کی حکومت کا بھی علم نہ تھا کہ وہ کیسے اور کیوں چل رہی ہے؟.آخناتون کی وفات کے بعد اس کا بسا ہوا یا دارلحکومت بری طرح برباد کردیا گیا۔ ہر دفتر اور مکان کی ایک ایک اینٹ اینٹ اُکھاڑ دی گئی۔ نئے مذہب کے جتنے بھی ظاہری آثار تھے، ان سب کو مٹادیا گیا، خاص طور پر آخناتون کے محلات اور مندروں کو ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ آخناتون کے بعد اس کا بیٹا توت عنخ آمن مصر کا نیا فرعون اور اس کی بیٹی اور سابقہ بیوی انخسنامون،مصر کی ملکہ بنے۔ ان دونوں نے مصر سے اپنے باپ کے رائج کیے دین کو تبدیل کرکے واپس بت پرستی اور شرک عام کردیا۔ آخناتون کے مذہبی انقلاب کے ساتھ ساتھ اس کی ذاتی زندگی بھی نہایت عجیب و غریب ہے۔ مصر کے اس فرعون نے اپنی بیٹیوں سمیت اپنی بہنوں سے بھی شادیاں رچائیں، جبکہ اس فرعون نے ایک لڑکے کو بھی اپنا شریک حکومت بنایا۔