counter easy hit

عمران حکومت کے پہلے 15 ماہ : صف اول کے صحافی نے کپتان کے کارناموں کی تفصیلات قوم کے سامنے رکھ دیں

زیر نظر شعر دومہینوں کے ذکر کے ساتھ مکمل سال کا احاطہ کرلیتا ہے۔
؎ یکم جنوری ہے نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھیں گے کیا حال ہے
2019 ؁ ء کے پہلے مہینے میں یہ شعر’’یوٹرن‘‘ کی زینت بنا جس میں نئے سال کے حوالے سے کچھ خدشات اور چند توقعات وابستہ کی گئیں، اب سال گزرنے پر اندیشوں اور امیدوں کو ترازو میں تولیں تو میزان پر صورت حال الطاف حسین حالی کے درج ذیل شعر کی مانند دکھائی دیتی ہے۔
؎ نظر آتی ہی نہیں صورتِ حالات کوئی
اب یہی صورتِ حالات نظر آتی ہے

 

نک جب کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو ۔۔۔۔۔ پریانکا چوپڑا کا اپنے شوہر نک جونز کے بارے میں انتہائی رومانٹک انکشاف

نامور کالم نگار ابن صحرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔ جنوری 2019 ؁ ء تک موجودہ حکومت کی عمر چار چھ ماہ ہی تھی جس پر کسی بھی طرح کا تبصرہ کرنا بنتا نہیں تھا مگر امسال پہلے ماہ سے لیکر تادم تحریر مہنگائی، بے روزگاری، بھوک، جہالت اور بیماری نے عام آدمی کو حال بے حال کر دیا۔ پاکستانی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی حکومت نے عجلٹ میں معاشی ٹیم کو تبدیل کر دیا کہ اصلاح احوال کی کوئی صورت نکل آئے مگر اس کے باوجود معیشت سنبھل کر نہ دی اگر ایک جانب ڈالر آسمان سے باتیں کر رہا تھا تو دوسری طرف بنیادی اشیاء ضرورت عوام کی پہنچ سے باہر ہو گئیں۔ امپورٹڈ اشیاء کی قیمتوں کا بڑھنا تو سمجھ میں آتا ہے کیونکہ ان کی قیمتیں ڈالر سے مشروط ہوتی ہیں لیکن لوکل اشیاء صرف کی قیمتیں بھی من مرضی سے بڑھا دی گئیں بہانہ یہ بنایا گیا کہ پٹرول مہنگا ہے۔ شاید مہنگائی میں کچھ ہاتھ پٹرول کی قیمتوں کی بڑھوتری کا بھی ہو لیکن اس سارے قضیے میں ہمالیہ سے بڑا سوال حکومت کی ناقص کارکردگی پر بھی کھڑا ہو گیا۔ مارکیٹ میں قیمتوں کے کنٹرول کا حکومتی نظام کہیں بھی نظر نہ آیا۔ تاجر من مرضی سے زندگی برقرار رکھنے والی خوراک اور ادویات کی قیمتیں بڑھاتے اور وصولتے رہے ایک بازار سے دوسرا بازار تو درکنار ایک دکان کا دوسری دکان سے ریٹ لگا نہ کھاتا سرائیکی زبان کے مطابق “لگے دا، داء اے ــ”مطلب جس کا جہاں دائو لگتا خریدار کی جیب پر وہ اتنا ہی بڑا ڈاکہ ڈالتا۔

سنا ہے اب عمران خان نے مہنگائی کو لگام دینے کے لیے مجسٹریٹی نظام بحال کرنے بارے فیصلہ کیا ہے شاید اس فیصلے سے مہنگائی مارے عوام کو تھوڑی بہت ریلیف میسر آ جائے۔ ویسے “بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔”
اب یہ بھی نہیں کہ رواں سال سارا ہی رائیگانی کی نذر ہوا عمران حکومت کے چند اقدامات قابل تعریف اور قابل تقلید بھی ہیں سابقہ دو حکومتوں کے برعکس اوپری سطح پر جو مار دھاڑ (کرپشن) ہو رہی تھی خانِ اعظم کی موجودگی میں اُس کا حجم نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے زرداری اور نواز شریف حکومتوں نے توریاست پاکستان کو گردن تک قرضوں میں دھنسا دیا یہ عمران خان ہی تھا جس نے حکومت سنبھالنے کے بعد دوست ممالک کے طوفانی دورے کر کے اربوں ڈالر اکٹھے کیے پچھلوں کے لیے قرض ادا کیے اور پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا سابقہ حکمران جانتے تھے 2018 ؁ ء کے عام انتخابات ان کا اقتدار میں آنا نہایت مشکل ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے قرض حاصل کرنے کا ہر وہ طریقہ اختیار کیا جس سے نہ صرف آنے والی حکومت کا چلنا بلکہ ریاست کا ڈیفالٹ کرجانا یقینی ہو جائے مگر اللہ پاک کے بے پایاں کرم کے طفیل سابقہ بدنیت حکمران دربدر جبکہ مملکتِ خداداد پاکستان پوری قوت سے اپنے پائوں پر موجودہے۔
خیر دسمبر کا ذکر ہو اور16 دسمبر سانحہ مشرقی پاکستان کا تذکرہ نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے۔عدیم ہاشمی نے متذکرہ سانحے اورتاریخ میں پیش آنے والے دلدوز واقعے کو یوں بیان کیا کہ ؎ ہم ایک لاکھ تھے ہم نے تو سر جھکا ڈالے
حسین تیرے بہترسروں کو لاکھ سلام
کالم یہاں تک پہنچا تھا کہ ٹیلی ویژن سکرینوں نے چیخنا، چلانا بلکہ چنگھاڑنا شروع کر دیا کہ باوردی وکلا برادری باجماعت ہو کر لاہور میں دل کے سب سے بڑے ہسپتال پر چڑھ دوڑے۔میں دل خراش مناظر دیکھتا رہااور دل ہی دل میں یہ سوچ سوچ کر ہلکان بھی ہوا جا رہا تھا کہ بیرونی مہذب دنیا دجب یہ منظر دیکھے گی تو وہ اس سے کیا اخذ کرے گی کہ یہ انسان نما جانور کون ہیں جنہوں نے اذیت میں مبتلا مریضوں کا بھی خیال نہ کیا انہی درندوں کے باعث چند مریض اپنے پیاروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔ کسی نے صحیح کہا کہ حالت جنگ میں بھی دشمن شفا خانوں پر بمباری نہیں کرتے اگرچہ انہیں یقین بھی ہو کہ ہسپتال میں دشمن فوج کا سپاہی چھپا بیٹھا ہے۔جبکہ 12 اکتوبر کو وکیلوں کے روپ میں بیسیوں حیوانوں نے
نہ صرف وہاں سنگ باری کی بلکہ مریضوں کے چہروں سے آکسیجن ماسک بھی نوچ ڈالے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سینئر قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن نے یونہی نہیں کہا کہ وکیلوں کے شرمناک رویے نے میراسر شرم سے جھکا دیا ہے۔ ہسپتال پر حملہ کیس میں لاہور ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ وکلا نے جو کیا وہ جنگل کا قانون ہے جنگل کے قانون میں معاشرے نہیں بچتے جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دئیے آپ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا آپ کو اندازہ نہیں ہم کس دکھ میں مبتلا ہیں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے مشورہ دیا کہ سینئر اور نوجوان وکیل گلدستے لیکر پی آئی سی جائیں اور ڈاکٹروں سے گلے مل کر معاملہ ختم کریں۔ معاملہ اب کہاں ختم ہوتا ہے کس کو معلوم۔ ہاں وکلا برادری کے بھیس میں جن کالی بھیڑوں نے ہسپتال پر حملہ کیا ہے انہیں عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی بھی طبقہ/ مافیا ایسی انسانیت سوز حرکت سے باز رہے۔ چند دن بعد یہ سال بھی سال گذشت ہو جائے گا۔ اللہ پاک پاکستان کو آنے والے سال میں سلامتی، خوشحالی اور قوت برداشت سے مالا مال فرمائے۔ اللہ کرے سال ِنوہمارے لیے آسانیاں لائے۔ (آمین)

FIRST, 16, MONTHS, OF, IMRAN KHAN, FAMOUS, JOURNALIST, REVEALED, THE, TRUTHS

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website