ڈونلڈٹرمپ نے امریکا کے 45 ویں صدر کاحلف اٹھا لیا۔رسم حلف برداری کے بعد انھوں نے جو تقریرکی، اسے مغربی ذرایع ابلاغ تو مایوس کن قرار دے رہے ہیں، جب کہ بعض پاکستانی تجزیہ نگاروں اور اخبارات نے اس خدشے کا اظہارکیا ہے کہ ان کا دور صدارت دنیا کے بیشتر ممالک کے لیے غیریقینی صورتحال اور تشویش کا باعث ہوسکتا ہے، لیکن اس تقریر میں تین باتیں خاصی اہمیت کی حامل تھیں،جن کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے،کیونکہ ان سے امریکی منصوبہ سازوں کے تبدیل ہوتے رجحانات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اس تقریر میں انھوں نے ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا تصور ہمارے سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف اس صدی کے آغاز میں پیش کرچکے ہیں۔ یہ تصور دراصل جدید قوم پرستانہ رجحانات کوظاہرکرتا ہے۔ جن کا مقصد گلوبلائزیشن کے تحت عالمی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیا جانا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکا میں مختلف صاحب الرائے حلقے اورتھنک ٹینکس کافی عرصے سے اس بات پر زوردیتے آرہے ہیں کہ امریکا کو عالمی جھگڑوں میں ملوث ہونے کے بجائے اپنے ملک کی تعمیروترقی کو اولیت دینا چاہیے۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔پہلی وجہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے آغازکے ساتھ دنیا یونی پولر کے بجائے ملٹی پولر ہوچکی ہے اور دنیا کے کئی ممالک معاشی ترقی کی دوڑ میںلگے ہوئے ہیں۔جس کی وجہ سے عالمی معیشت پرامریکی اثرات اورگرفت کمزور پڑرہی ہے جو اندرون ملک معاشی بحران کا باعث بن رہا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکا کے دنیا بھرکے معاملات میں ملوث ہونے کی وجہ سے اس کی معیشت اور دفاعی صلاحیت کمزور پڑرہی ہے،جو منصوبہ سازوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ تیزی سے عالمگیر ہوتی معیشت نے قومی سطحوں پر بیشترممالک کے لیے نئے مسائل پیدا کردیے ہیں، جنھیں حل کرنے میںامریکا سمیت سبھی ممالک کی قیادتوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔لہٰذا دنیا بھر میں معیشت کو قومی بنانے کا رجحان زور پکڑرہاہے۔ لہٰذا امریکی منصوبہ ساز معیشت کو قومی بنانے کو اولیت دے رہے ہیں۔ مسٹر ٹرمپ کا ’’ سب سے پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ اسی سوچ کا مظہر ہے۔
ان کی تنقید کادوسرا ہدف نیٹو تھی۔ نیٹو تنظیم شمالی اوقیانوس معاہدہ مارشل پلان کے نتیجے میں اپریل1949میں قائم کی گئی تھی۔اس تنظیم کے قیام کا مقصد مغربی یورپ سمیت بقیہ دنیا کوکمیونزم کے اثرات سے محفوظ رکھنا تھا۔ایک عمومی خیال یہ تھاکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جب مشرقی یورپ کے سوشلسٹ ممالک پر مشتمل وارسا پیکٹ ختم ہوگیا، تواصولی طور پرنیٹوکو بھی ختم ہوجانا چاہیے تھا، مگر امریکا نے اپنے مخصوص عالمی تزویراتی حکمت عملی مفادات کی خاطر اسے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ نتیجتاً سرد جنگ کے بعد سے اس تنظیم کو چلانے کے لیے درکارفنڈزکا بیشتر حصہ امریکا کو دینا پڑ رہا ہے۔
جس پر امریکی منصوبہ سازگزشتہ کئی برسوں سے مسلسل اعتراض کررہے ہیں۔ ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ اسی وقت عملی شکل اختیارکرسکتا ہے، جب امریکا نیٹو میں اپنے کردارکو محدود کر لے۔چنانچہ ری پبلکن صدر نے اس مسئلے کو سیاسی ترجیح بنا کر پیش کیا ہے۔ہوسکتا ہے کہ ری پبلکن پارٹی نے نیٹوکو ختم کرنے یا اس کی تشکیل نوکا کوئی منصوبہ بنارکھا ہو۔
ان کی تقریر کا تیسرا اہم نکتہ’’ اسلامی دہشت گردی‘‘ سے نمٹنا تھا۔ یہاں انھوں نے اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کی ہے۔جو ان کے ذہن میں پلنے والی عصبیت کوظاہرکرتی ہے،کیونکہ دنیا میں دہشت گردی صرف مسلمان نہیں کررہے، بلکہ مختلف قومیتوںاور عقائد سے تعلق رکھنے والے عناصر اس عمل میں ملوث ہیں۔
بھارت میں ہندوتوا کی تحریک شدت اختیار کررہی ہے،جس کے نتیجے میں مسلمانوں اور مسیحیوں سمیت مذہبی اقلیتوں کا حلقہ حیات تنگ ہو رہا ہے۔ برما میں امن کے پجاری کہلانے والے بدھ بھکشو بھی شدت پسندی پر اتر آئے ہیں، جنہوں نے اپنے ملک میںمسلمانوںکا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم کی داستان تقریباً پون صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ یورپ اور امریکا میں بھی بعض پیوریٹن حلقوں کی جانب سے دیگر مذاہب بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ متشدد طرز عمل کی شکایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اب جہاں تک مسلمانوں میں شدت پسندانہ رجحانات کا تعلق ہے، تو یہ موجودہ شکل میں پہلی عالمی جنگ کے بعد اس وقت پیداہونا شروع ہوئے، جب برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کو انتقام کا نشانہ بنانے کی خاطر مشرق وسطیٰ میں بغاوت کی پس پردہ سرپرستی کی۔ لیکن حالیہ شدت پسندی 1980کے عشرے میںشروع ہونے والی پہلی افغان جنگ اور انقلاب ایران کے نتیجے میں پروان چڑھی۔اس کا سبب یہ تھا کہ ایک طرف امریکی منصوبہ سازوں نے مسلمانوں کے عقیدے کے ایک اہم جزو تصورجہاد کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا، جب کہ دوسری طرف ایران کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیارکیا، لیکن جیسے ہی روسی فوجیں افغانستان سے واپس گئیں، امریکا اس خطے سے بے نیاز ہوگیا۔ وہ جنگجو جنھیںسوویت یونین کے خلاف جنگ کے لیے بھرتی کیا گیا تھا ،انھیں بے آسرا چھوڑکر چلاگیا۔ پھردسمبر1990میں امریکا نے عراق پر حملہ کر کے مشرق وسطیٰ میں پہلی جنگ شروع کر دی۔اس جنگ نے امریکا کے ان دوستوں کوبھی اس کا دشمن بنادیا، جو پہلی افغان جنگ میں اس کے معاون و مددگار رہے تھے۔
9/11کے بعد امریکا نے ایک طرف کئی برسوں کی جنگ سے زخم خوردہ تباہ حال افغانستان پر حملہ کردیا، جب کہ دوسری طرف مہلک اور انسان سوز ہتھیاروں کی موجودگی کی بے بنیاد رپورٹ پر عراق پر دوسرا حملہ کردیا۔اس نئی صورتحال نے مسلمانوں کے اس بڑے حلقے کو جو پہلی عالمی جنگ کے بعد سے مغرب کی سیاسی حکمت عملیوں کا شاکی چلا آرہا تھا اور اسرائیل کی بے جا سرپرستی نے جنھیں امریکا سمیت پورے مغرب سے متنفرکردیا تھا، اس کی نفرتوں کا لاوا پھٹ پڑا۔آج ریاستوں کے سفارتی اور سیاسی مفادات سے قطع نظر شاید ہی کوئی ایسا مسلم ملک ہو، جس کے عوام امریکا کے لیے اچھے جذبات رکھتے ہوں۔ امریکا کے ساتھ نفرت کے جذبات اس کی معاندانہ پالیسیوں کا ردعمل ہے لیکن امریکی منصوبہ ساز اس تلخ حقیقت کو سمجھنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح کا استعمال اور اس کے خاتمے کے عزم کا اعادہ، عالمی سطح پر تنازعات کے ختم ہونے کے بجائے انھیں مزید بڑھانے کا باعث بن سکتا ہے۔ان کا دعویٰ اورغیر ذمے دارانہ طرزدہشت گردی کی آگ کو بجھانے کے بجائے اسے مزید بھڑکا سکتا ہے۔ جو ایک نئے عالمی بحران کا باعث بن سکتا ہے۔اس حقیقت سے ایک عالم آشکار ہے کہ مشرق وسطیٰ غلط امریکی پالیسیوں کے سبب پہلے ہی آتش فشاں بنا ہوا ہے، اگر اسرائیل کی چیرہ دستیوں (بالخصوص نئی بستیوں کی تعمیر) کی مزید سرپرستی کی گئی( جیسا کہ ان کے بیانات سے ظاہر ہے)، تو مسلمانوں اور مغرب کے درمیان خلیج مزید گہری ہوجائے گی۔
جب کہ جنوبی ایشیا میں پاک بھارت تنازع میں غیر متوازن روش اس خطے میں امن کی خواہش کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امریکی انتظامیہ چین کے اس خطے میں بڑھتے ہوئے تجارتی اورتزویراتی اثرات کو کم کرنے کے لیے بھارت کی فوجی امداد میں مزید اضافہ کر دے۔ جس کے نتیجے میں خطے میں طاقت کا توازن بد ترین انداز میں بگڑ سکتا ہے۔ افغانستان بھی امریکا کے غیر ذمے دارانہ رویوں کے باعث چاردہائیوں سے مسلسل حالت جنگ میں ہے۔ اگر موجودہ سنگین صورتحال میں غیر سنجیدگی اور تاخیری حربوں سے گریز نہیں کیا گیا، خطے میں امن کا عمل مزید الجھاؤ کا شکار ہوسکتا ہے۔
لیکن ایڈونچرکے خواہشمند ڈونلڈٹرمپ کو اپنے ہی ملک میں عوامی ناپسندیدگی اوراحتجاج کا سامنا ہے۔ان کے غیر ذمے دارانہ لب ولہجے نے ذرایع ابلاغ، بیوروکریسی اورتھنک ٹینکس کو اپنا مخالف بنا لیا ہے۔اس پرطرہ یہ کہ صنفی امتیازات اور جنسی طورپر ہراساںکرنے کے الزامات نے دنیا بھر میں خواتین کو ان کا مخالف کردیا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ آیا وہ اپنی مدت پوری کرسکیں گے یاوقت سے پہلے مواخذے کا شکار ہوکر قصر ابیض سے باہر ہوجائیں گے؟ اس وقت دنیا میں پائیدارامن وامان کے قیام، ماحولیاتی آلودگی پرکنٹرول اورخودامریکا کے اندر سیاسی استحکام ان کے اگلے اقدامات سے مشروط ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی سابقہ روش تبدیل کرتے ہیں یا اسے جاری رکھتے ہوئے امریکا اوردنیا بھر کے لیے نئی مشکلات پیدا کرتے ہیں۔