لاہور: پاکستان تحریک انصاف نے جمعے کے روز پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کے لئے اپنے ہی تجویز کردہ ناصر محمود کھوسہ کی نامزدگی کی منظوری کے بعد اسے مسترد کردیا۔
اس سے قبل تحریک انصاف خیبر پختون خوا میں اپنے ہی تجویز کردہ منظور آفریدی کی منظوری مسترد کرنے کا اعزاز حاصل کر چکی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف ایک منظم جماعت ہے جو اپنے سالار کے حکم پر قدم بڑھاتی ہے اور ایک آواز پر واپس گھوم جاتی ہے۔ پھر کاشن ملتا ہے، جیسے تھے۔۔۔ تحریک انصاف پتھر کی مانند ساکت ہو جاتی ہے اور امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کرتی ہے۔ اسے کہتے ہیں تنظیمی صلاحیت۔ قائد تحریک نے پی ٹی آئی کو یک جان و دو قالب کر دیا ہے۔ ایک قالب عمران خاں نیازی کی مجازی صورت میں ہے اور دوسرا قالب روحانی ہے۔ روحانی قالب کی تفصیل دنیا دار پڑھنے والوں کے لئے بیان کرنے کی اجازت نہیں۔ناصر کھوسہ کے نام پر تنازع کے بعد تحریک انصاف نے جو نام پیش کیے ان میں اوریا مقبول جان کا نام سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ گجرات میں پیدا ہونے والے اوریا مقبول جان نے پنجاب یونیورسٹی سے سوشل ورک میں ایم اے کرنے کے بعد نامعلوم وجوہات کی بنا پر بلوچستان یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ عرصہ تدریس سے وابستہ رہے۔ بلوچستان یونیورسٹی سے رابطہ منقطع ہونے کے اسباب بوجوہ پردہ اخفا میں ہیں۔ اس کے بعد پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کا امتحان پاس کیا۔
مستونگ اور چاغی کے ڈپٹی کمشنر رہے۔ تئیس برس تک بلوچستان میں خدمات سرانجام دیں، اس دوران “قامت” کے نام سے ایک شعری مجموعہ شائع ہوا۔ ناقدین کے مطابق یہ شاعری ادبی تاریخ کا حصہ بننے کی بجائے اوریا صاحب کے سی-وی میں اسی طرح روپوش ہو گئی جیسے شعر کا معنی بعض اوقات فی بطن شاعر دفن ہو جاتا ہے۔ شاعری کے بعد اوریا صاحب نے کچھ ٹی وی ڈرامے لکھے، پھر اخباری کالم نویسی پر توجہ کی، نجی ٹیلیویژن چینلز آئے تو یہاں بھی رونمائی دی۔ مذہبی اشتعال انگیزی، تاریخ کا مثلہ، جمہوریت دشمنی، تعصب اور جذباتی واویلا موصوف کے فن کی بنیادی خصوصیات قرار پائیں۔عمر بھر سرمایہ داری نظام کی خدمت کی۔ اواخر عمر میں سرمایہ داری کے مخالف ہو گئے تاہم یورپ اور امریکہ کے مطالعاتی دورے کرتے رہتے ہیں تاکہ سرمایہ داری کی موجودہ حالت زار کا بچشم خود جائزہ لے سکیں۔ اوریا مقبول جان کی سیاحت کے بہت سے پہلو ان کی نجی یادوں کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ اوریا مقبول جان خوش لباس ہیں۔ پائپ کے لئے بدیسی تمباکو اور کلائی کے لئے بیش قیمت گھڑیاں مرغوب ہیں۔یہ امر دلچسپ ہے کہ فروری 2014ء میں طالبان کو پاکستانی ریاست سے مذاکرات کے لیے قابل اعتماد نمائندوں کی ضرورت پیش آئی توتحریک طالبان کی نظر انتخاب اوریا مقبول جان پر ٹھہری۔ ٹھیک چار برس بعد مئی 2018ء میں تحریک انصاف نے نگران وزیر اعلی کے منصب کے لیے اوریا مقبول جان کو قابل اعتماد قرار دیا۔ تحریک طالبان اور تحریک انصاف کے لیے یکساں طور پر قابل اعتماد ٹھہرنا اوریا مقبول جان کی ہمہ دانی پر دلیل ہے۔ گذشتہ دنوں انہیں امریکی حکومت نے ویزہ دینے سے انکار کر دیا تھا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد حاضر کی واحد سپر پاور اوریا مقبول جان کے جذبہ ایمانی سے خائف ہے۔عام رائے یہ ہے کہ پنجاب حکومت اور تحریک انصاف کو آنکھیں بند کر کے اوریا مقبول جان کو بیک وقت پنجاب اور بلوچستان کا نگران وزیر اعلی مقرر کر دینا چاہئیے۔ تاہم اس میں اندیشہ یہ ہے کہ اگر اوریا مقبول جان کی ان گنت پیش گویوں کے مطابق نگران حکومت کے دوران ہی غزوہ ہند پیش آ گیا تو باطل کے خلاف حق کی قوتوں کی میدان جنگ میں رہنمائی کون کرے گا۔ اوریا مقبول جان کے جہادی جذبے کے پیش نظر مناسب ترین بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ انہیں غزوہ ہند میں ہراول دستے کا سالار مقرر کیا جائے۔عمائدین مملکت اس وقت یہی گتھی سلجھانے کے لئے سر جوڑے بیٹھے ہیں۔