کراچی …… بھتے، لوٹ مار اور غیرمعمولی کرپشن کا شکار کراچی فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کا انتظام دوبارہ پاکستان نیوی کے حوالے کرنے کا مطالبہ شدت اختیار کرگیا ہے ۔
اس سلسلے میں ایف سی ایس کی تمام متعلقہ 4 فریقین کی جانب سے متفقہ طور پر تحریری درخواستیں کی جاچکی ہیں اور پورے ہاربر پر بینرز لگا دیئے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس مطالبے پر عملدرآمدکی صورت میں فش ہاربر اتھارٹی اور میرین فشریز ڈیپارٹمنٹ بھی پاکستان نیوی کے ماتحت آجائیں گے۔ذرائع کےمطابق13 سال قبل کراچی فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی اور دیگر متعلقہ اداروں کا انتظام پاکستان نیوی کے پاس یہ عرصہ ادارے کی تاریخ میں مثالی ثابت ہوا ہے۔سابق وزیر اعلیٰ علی محمد مہر نے ذاتی دلچسپی کے تحت پاکستان نیوی سے انتظامات لے کر سندھ حکومت کے ماتحت دے دیئے تھے اور انہوں نے اپنے قریبی عزیز اقبال احمد مہر کو مینجر ایف سی ایس تعینات کرایا تھا۔ذرائع کے مطابق یہی وہ دور تھا جب کراچی فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی میں غیر معمولی کرپشن، اقربا پروری اور لوٹ کھسوٹ شروع ہوئی جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی اور جس کے بعد مختلف مافیا اور گینگ وار اپنے اپنے زور پر اس اہم ادارے کو نوچتے رہے ۔اب جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے آپریشن کے بعد تمام مافیا فشری سے راہِ فرار اختیار کرچکے ہیں تو اس ادارے میں کوئی بھی معقول انتظامی باڈی کا وجود نہیں اور سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر اس ادارے کے نچلے درجے کے انتظامی افسران دفتری امور چلا رہے ہیں جن کے پاس کرپٹ اور غیر حاضر اہلکاروں کو برطرف کرنے سمیت اہم نوعیت کے فیصلے کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں۔ موجودہ صورتحال میں فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کی مول ہولڈرز ایسوسی ایشن، جھینگا اور فیکٹری کی پراسیسنگ فیکٹری کے مالکان، فشنگ بوٹ مالکان اور بیوپاریوں کی ایسوسی ایشن، متعلقہ اداروں کو تحریری طور پر لکھ چکے ہیں کہ فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کا انتظام ماضی کی طرح پاکستان نیوی کے حوالے کیا جائے۔ذرائع کے مطابق اگر فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی اور ہاربر میں موجود فش ہاربر اتھارٹی اور میرینز فشریز ڈپارٹمنٹ بھی ماضی کی طرح پاکستان نیوی کے حوالے کردیئے جائیں تو انتظامی معاملات غیرمعمولی طور پر بہتر ہوجائیں گے۔ سیکورٹی کے شدید خطرات بھی دور ہوجائیں گے۔ ناصرف یہ کہ پاکستان نیوی کے انتظامی افسران ماضی کی طرح ماہی گیروں سے وصول ہونے والے کمیشن کی آمدنی بھی بہتر کریں گے۔ماضی میں جب پاکستان نیوی کا کنٹرول تھا تو یورپی یونین کے وفد نے کراچی فش ہاربر کے دورے کے بعد پاکستان کی دس کمپنیوں کو اپنے معیار کے مطابق قرار دیا تھا، حکومتی انتظام آنے کے بعد اُن میں سے چھ کمپنیاں بلیک لسٹ کردی گئی تھیں اور اب محض چار کمپنیاں یورپی یونین کے معیار کے مطابق کام انجام دے رہی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق کمیشن کی مد میں بھی سالانہ 80 کروڑ سے ایک ارب روپے حکومت کو وصول ہوں گے جبکہ دیگر آمدنی ذرائع بھی بہتر ہوں گے۔ ماہی گیروں کی فلاح وبہبود اور ویلفیئر کے معاملات بہتر ہوں گے، ماضی کی طرح فش ہاربر پر صفائی ستھرائی کا انتظام یورپین یونین کے معیار کے مطابق ہوگا جس سے پاکستان کا زرمبادلہ بہتر ہوگا، بھتے کا خاتمہ ہوگا، ادارے سے چوری چکاری بند ہوگی اور مافیاز سے بھی چھٹکارا حاصل ہوجائے گا۔
اس مطالبے کے بعد حکومتی سطح پر غوروخوض کیا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں بہت جلد فیصلہ کرلیا جائے گا۔