پیٹربرد،برمنگھم، بریڈ فورڈ، اولڈم اور نیلسن وہ پانچ شہر تھے جہاں 30 نومبر سے 4 دسمبر تک ہم نے ایک ایک رات قیام کیا۔ پیٹر برد اور نیلسن باقی تینوں شہروں کے مقابلے میں چھوٹے بھی تھے اور نئے بھی کہ یہاں اس سے پہلے کبھی آنا نہیں ہوا تھا۔ ہر جگہ پر میزبان یوکے اسلامک مشن کے مقامی عہدیدار تھے اور اگرچہ سب ہی بہت محبت والے اور اپنے مقصد سے کمٹڈ لوگ تھے لیکن انتظامی صلاحیتوں کا فرق اپنی جگہ تھا۔حاضرین کی گنتی کے اعتبار سے سب سے بڑی تقریب اولڈم میں ہوئی لیکن اگر شعر فہمی کی سطح اور تناسب کا معیار بنایا جائے تو بریڈ فورڈ کا نمبر پہلا بنتا تھا کہ انور مسعود اور میں نے تقریباً 45منٹ فی کس کلام سنایا مگر سامعین کی فرمائشوں اور جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ شائد مزید دو گھنٹے بھی کم پڑے۔جب سے راستوں کی تلاش اور تعین میں جی پی ایس سسٹم نے رہنمائی کا کام سنبھالا ہے، زمینی سفر کی دنیا ہی بدل گئی ہے۔ مجھے یاد ہے تقریباً بیس برس پہلے جب پہلی بار میں نے اس سسٹم کے ساتھ مرحوم انور مغل کی کار میں برمنگھم سے لندن تک کا سفر کیا تھا تو اس کا تاثر طلسم ہوشربا سے کم نہیں تھا کہ فضاؤں میں انسانی دماغ اور ہاتھوں کا تخلیق کردہ ایک مصنوعی سیٹلائٹ بیک وقت لاکھوں کروڑوں مسافروں کو ان کے رستے میں آنے والے ہر موڑ کی خبر اس طرح سے دیتا ہے کہ راہ سے بھٹکنے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ آپ صرف اپنی مطلوبہ جگہ کا پوسٹ کوڈ داخل کرتے ہیں اور اس کے بعد مشین ایک کمپیوٹرائزڈ انسانی آواز کے ذریعے آپ کو آپ کی مطلوبہ جگہ کے عین سامنے پہنچا دیتی ہے۔
اب تو یہ سسٹم موبائل فون میں بھی آگیا ہے اور خود پاکستان کے کئی شہروں میں بھی یہ سہولت موجود ہے۔ عام استعمال ہونے کی وجہ سے یہ ٹیکنالوجی اب اتنی حیران کن تو نہیں رہی لیکن اس کے تمام تر فوائد کے باوجود یہ احساس بہت پریشان کن ہے کہ کوئی پراسرار آنکھ آپ کی ہر حرکت کو ہمہ وقت دیکھ رہی ہے۔ پرانے وقتوں میں لوگ رستوں میں قائم کردہ نشانیوں اور بستیوں کے ذریعے سے اپنا راستہ متعین کرتے تھے۔ انجن کی ایجاد کے بعد سے یہ کام ریل کے اسٹیشنوں اور سڑکوں کے سائن بورڈز سے لیا جانے لگا۔ ہاتھ سے بنائے ہوئے نقشوں کی جگہ چھپے ہوئے نقشوں نے لے لی جن سے رستوں اور سمت کا پتہ چلتا رہتا تھا مگر ان سب طریقوں میں انسانی ذہن اور حافظے کی شمولیت کسی نہ کسی حوالے سے قائم رہتی تھی۔ جب کہ اس مشین سے نکلنے والی میکانکی آواز اور اسکرین پر بننے والی رنگارنگ لکیروں کا جال آپ کو بالکل مداری کے معمول جیسا بنا دیتا ہے جس کی اپنی کوئی مرضی نہیں رہتی لیکن جس طرح غلط گائیڈ مسافروں کو رستے سے بھٹکا دیتا تھا یہ مشین بھی ایسا کرسکتی ہے۔
یعنی اگر آپ اس میں اپنی منزل کا صحیح پتہ ڈالنے میں کوئی غلطی کریں تو یہ بھی آپ کو کہیں اور لے جاسکتی ہے۔ پیٹربرد جاتے ہوئے ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ راجہ قیوم نے منتظمین سے کہا بھی کہ وہ مطلوبہ جگہ کا پوسٹ کوڈ انھیں ایس ایم ایس کردیں تاکہ اندراج میں کوئی غلطی نہ رہے مگر کسی وجہ سے ایک لفظ غلط ٹائپ ہوگیا اور ہم اپنی منزل سے 20میل دور ایک اور قصبے میں پہنچ گئے۔ معلوم ہوا کہ چھوٹے شہروں اور بالخصوص اندرون شہر کے رستوں میں بہت زیادہ پیچ و خم ہونے کی وجہ سے ایک غلط لیا ہوا موڑ خاصا پریشان کن بھی ہوسکتا ہے کہ مشین کی آنکھ صرف دیے گئے پوسٹ کوڈ کے اشاروں پر چلتی ہے۔ یعنی
’’لک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد‘‘
اولڈہم مانچسٹر شہر کے مضافات میں واقع ہے اور یہاں پاکستانیوں کی تعداد 30 ہزار کے قریب ہے لیکن اس کی سب سے قابل ذکر بات وہ اسلامک سینٹر ہے جس میں چند برس قبل بھی ہمیں ٹھہرنے کا موقع ملا تھا لیکن اب یہ عمارت ہر اعتبار سے مکمل اور فنکشنل ہے اور اسے ہر لحاظ سے ایک ایسا مثالی ادارہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی تعمیر بالکل جدید انداز میں اور اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ کی گئی ہے۔ خاصے وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی اس شاندار عمارت کے کلاس رومز، کالز، عبارت کی جگہ اور انتظامی دفاتر سب کے سب بہت عمدہ اور جدید انداز میں بنائے گئے ہیں اور اسے دینی تعلیمات اور ان سے متعلق درس گاہ کا ایک ایسا ماڈل بنایا گیا ہے جسے اسلام کو ایک شدت پسند مذہب قرار دینے والوں کے سامنے فخر اور اعتماد سے پیش کیا جاسکتا ہے۔بریڈ فورڈ کو لٹل پاکستان بھی کہا جاتا ہے کہ اس شہر میں پاکستانیوں کی آبادی تناسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ ہے۔ یہاں اس سے پہلے بھی کئی بار آنا ہوا ہے۔
بک کارنر والے قریشی صاحب، مقصود الٰہی شیخ اور صوفی اسماعیل کا ذکر میں پہلے بھی کئی بار کرچکا ہوں۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس بار ان میں سے کسی سے بھی ملاقات نہیں ہوپائی کہ ہمارا قیام صرف چند گھنٹوں کا تھا۔ البتہ یہاں کا دو رکنی مشاعرہ جو انور مسعود اور مجھ پر مشتمل تھا بہت کامیاب رہا۔ سامعین ایسے باذوق تھے کہ انھیں سننے اور ہمیں سنانے کا بہت لطف آیا۔ برنلے کے بہت سے احباب یہاں بھی آئے اور اولڈہم اور نیلسن میں بھی ان سے ملاقات رہی ان کا اصرار تھا کہ ہم گلاسگو جاتے ہوئے لنچ ان کے ساتھ کریں مگر ہم ناشتے کے لیے مانچسٹر کے قونصل جنرل ڈاکٹر ظہور احمد کی دعوت پہلے سے قبول کر چکے تھے۔ سو طے پایا کہ ان کے پاس ہم گلاسگو سے لندن واپس جاتے ہوئے رکیں گے۔ ڈاکٹر ظہور بہت ادب دوست اور خوش مزاج انسان نکلے۔ انھوں نے ایک کلاسیکل چینی ناول کا اردو ترجمہ بھی کررکھا ہے جو پنجاب یونیورسٹی نے شایع کیا ہے۔
میں نے انھیں بتایا کہ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے برادرم پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران نے میری شاعری کے اٹالین زبان میں تراجم پر مشتمل کتاب بھی اسی ادارے سے شایع کرائی تھی جو اس اعتبار سے ایک بہت احسن عمل ہے کہ یونیورسٹیوں کو اسی طرح اپنے اردگرد کی دنیا سے قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہیے کہ اس کے بغیر یہ گلوبل ویلیج صرف ایک اصطلاح بن کر رہ جائے گا۔ ڈیجیٹل چینل سے میری واقفیت قریبی بھی ہے اور پرانی بھی کہ لاہور یونیورسٹی سے تعلق کے دنوں میں پاکستان میں اس کی نشریات کو مقامی رنگ دینے کے منصوبے سے کچھ عرصے تک متعلق رہا ہوں۔
اب معلوم ہوا کہ یہ چینل ایک پاکستانی ڈاکٹر لیاقت ملک کا قائم کردہ ہے اور یہاں پاکستان کے باقی چینلز کے مقابلے میں مقامی اور ادبی پروگرام نسبتاً زیادہ پیش کیے جاتے ہیں۔ مخدوم امجد شاہ کا ادبی پروگرام لایٗو نشتر ہوتا ہے اور بہت شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دو تین دوروں میں ان کے اصرار کے باوجود انٹرویو کے لیے وقت نہیں نکل سکا تھا مگر اس بار وہ اپنے مشن میں کامیاب ٹھہرے اور ہم دونوں یعنی میرے اور انور مسعود کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا ایک طویل اور پر لطف انٹرویو کیا جس کے دوران میں بہت سے کالرز نے ہم سے گفتگو بھی کی جس سے اندازہ ہوا کہ وہاں کے لوگ اس پروگرام کو بہت ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں۔
اب ہماری اگلی منزل گلاسگو ہے جہاں پرانے احباب میں سے ڈاکٹر شفیع کوثر، احمد ریاض، راحت زاہد اور عزیزان سلمان شاہد اور شعیب گل خاص طور پر ہمارے منتظر ہیں۔