ایبٹ آباد: 2012 کا کوہستان ویڈیو سکینڈل نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔ سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی پانچوں لڑکیاں جعلی نکلیں جبکہ ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کے قتل کی تصدیق ڈی این اے اور فنگر پرنٹ ٹیسٹ سے ہوگئی ہے۔ پولیس کی جانب سے لڑکیوں کو قتل کرنے والے چاروں ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ جرگے کے ارکان کی تلاش کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ گرفتار ملزمان نے لڑکیوں کے دفن کی جگہ کی بھی نشاندہی کردی ہے۔2012 میں کوہستان کے ایک نوجوان نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے 2 چھوٹے بھائیوں نے شادی کی ایک تقریب کے دوران رقص کیا جس پروہاں موجود خواتین نے تالیاں بجائیں۔ موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو بعد میں مقامی افراد کے ہاتھ لگ گئی، جس پر جرگے نے ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کے قتل کا حکم جاری کیا، جرگے کے حکم پر عمل کیا گیا اور پانچوں لڑکیوں کو قتل کردیا گیا تھا۔کوہستان میں 6 سال قبل قتل ہونے والی لڑکیوں کی شناخت سرین جان، باذیغہ، شاہین، بیگم جان اور آمنہ کے نام سے ہوئی تھی۔ ملزمان نے لڑکیوں کو زندہ قراردے کر جن لڑکیوں کوعدالت میں پیش کیا تھا وہ لڑکیاں جعلی نکلیں۔ پانچ لڑکیاں سپریم کورٹ اور تحقیقات کیلئے قائم کیے جانے والے کمیشن کے روبرو پیش کی گئی تھیں جو جعلی تھیں۔ فنگر پرنٹ اور ڈی این اے ٹیسٹ نے سنگین جھوٹ کا پول کھول دیا۔ پولیس نے کہا ہے کہ لڑکیوں کو قتل کرنے والے چاروں ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ملزمان عمرخان، مولانا حبیب الرحمان، سامیر اورصبیر مقتول لڑکیوں کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ پولیس کے مطابق ملزمان نے لڑکیوں کو دفن کیے جانے کی جگہ کی نشاندہی بھی کردی ہے۔ تحقیقات کے بعد قتل میں ملوث چارملزمان کے خلاف 202، 201، 419، 420، اور 364 دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا گیا ہے۔