تحریر : ام ایمن ہاشمی
علی الصبح جب میری آنکھ کھلی تو یہ نغمہ میرے کانوں میں اک پیاری سی نئی صبح کی نوید سنا رہا تھا اور ساتھ ساتھ ہمارے سبز ہلالی پرچم کی شان و عظمت بیان کر رہا تھا ۔جسے سن کر دل و دماغ جھوم اٹھے ۔یہ پرچم مجھے یک لخت کئی مناظر دکھا گیا دو قومی نظریہ بیان کرتے اقبال، مسلمانان ہند کو یکجا کرتے قائد ،اور اپنے جان ومال کی پرواہ کئے بنا ان کی آواز پر لبیک کہتے وہ لوگ جو کہ اپنا سب کچھ گنوا کر بھی اس عظیم پرچم کو تھامے اس طرح خوش تھے کہ جیسے مْقصد حیات پا لیا ہو کہ جیسے ان کی جنت مل گئی ہو ان کے سروں پر لہراتا یہ پرچم بھی جھوم جھوم کر ان لوگوں کی خوشی میں شریک تھا۔
میں سوچ رہی تھی کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اس پرچم کے سائے تلے سب ایک ہیں کہ مصداق تھے ؟بیشک یہ وہی لوگ تھے ان کی آنکھوں میں اس پرچم کی سربلندی کا غرور تھا اور یہ پرچم ان کا غرور تھا ۔میں انہی خیالات میں محو تھی کہ جونہی میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا اور یوں لگا کہ یہ ایک درد ناک خواب ہے میں نے دیکھا کہ سڑک پر تا حد نظر جتنے بھی پرچم دکھائی دے رہے تھے سب سرنگوں تھے اور لوگ ان کے قریب سے عجب شان بے نیازی سے گزرتے جا رہے تھے کسی کو ان پرچموں کی سربلندی سے کوئی واسطہ نظر نہیں آتا تھا۔
کسی کو ان کے سرنگوں ہونے پر کوئی افسوس نہ تھا ۔سب اپنے اپنے مقررہ دائروں میں اپنے اپنے کاموں میں اپنی ہی زندگیوں میں مگن تھے پھر اچانک سے اک سرنگوں پرچم پر قائد کی تصویر ابھری ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ان کے نظرین پکار پکار کر کہہ رہی تھیں کہ کہاں ہیں وہ لوگ کہ جنہیں میں نے یہ وطن سونپا تھا ،کہ جن کے ہاتھوں میں میں نے یہ سربلندی کا علم تھمایا تھا ،کہاں ہیں وہ لوگ جو اس پرچم کے سائے تلے سب ایک تھے ؟ان کی نظروں میں اور بھی بہت سے سوال تھے ایسے سوال تھے کہ جن سے دل کٹتا تھا کہ جو روح کو چھلنی کر رہے تھے اور پھر ان کی نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے میں نے آنکھیں پھیرنی چاہیں او ر سر کو جھکا لیا اور ۔۔۔۔۔اور ۔۔۔پھر اک اور اذیت کی گہری کھائی میں گرتی چلی گئی۔
سامنے کا منظر کچھ یوں تھا کہ دو بچے ہاتھوں میں جھنڈیاں تھامے خوشی سے بھاگے چلے جا رہے تھی کہ اچانک ایک بچہ گر گیا اور اس کے ہاتھ سے قومی پرچم کے وہ چھوٹے چھوٹے ماڈلز چھوٹ گئے اور پھر ہوا سے اڑتے ہوئے کبھی سڑکوں پر لوگوں کے پیروں میں تو کبھی نالیوں میں جانے لگے کسی کو انکو اٹھانے کا خیال نہ آیا مجھ سے جب برداشت نہ ہوا تو میں نے باہر کا رخ کر کے خود انہیں اٹھانے کا ارادہ کیا اور پھر ۔۔۔پھر یوں ہوا کہ جہاں جہاں میری نظر گئی۔
مجھے پرچم زمین پر نظر آیا لوگوں کی نظراں سے بے نیاز میں انہیں اٹھاتی ہی چلی گئی مگر جب مجھے اندازہ ہوا کہ میں بہت دور نکل آئی ہوں تو قائد سے معافی مانگتے ہوئے میں بھی پرچم کو بے یار ومددگار زمین پر بکھرا ہوا چھوڑ کر واپس چلی آئی ۔خود پر افسوس ہے مگر خود سے زیادہ افسوس ہے ان راہنمائوں پر کہ جن کے بس میں بھی ہے کہ وہ یہ تذلیل روک لیں ۔مگر وہ تو خواب خرگوش میں مست ہیں ۔کاش کہ وہ اپنی اس نیند میں ایک خواب اس تلخ حقیقت کا بھی دیکھ لیں اور اس پاک وطن کے بیٹے ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے یہ تذلیل روک لیں۔
میں حکومت پاکستان سے اور بالخصوص حکومت پنجاب سے یہ اپیل کرتی ہوں کہ شیخوپورہ میں لگائے گئے ان سر نگوں پرچموں کو خدارا اگ سر بلند نہیں کر سکتے تو اتار دیں اور ملک بھر میں جھنڈیوں پر پابندی عائد کر کے قومی پرچم کی ہونے والی اس بے حرمتی کو روکا جائے ۔خدارا سمجھیئے کہ یہ کوئی عام پرچم نہیں بلکہ رب کریم کی عطا ہے ہم پر ۔ بہت سارے شہیدان وفا نے اپنے خون سے سینچ کر ہی اسے یہ ہریالی بخشی ہے یہ عظیم پرچم اگر آج اپنی اس حالت پر نوحہ کناں ہے تو اس کی اس حالت کا زمہ دار کون ہے ؟؟؟؟
تحریر : ام ایمن ہاشمی
Mail ;bintehawwa1997@gmail.com