تحری: عثمان غنی
چاہے کتنا ہی گھپ اندھیرا کیوں نہ ہو ،ننھے جگنو کی روشنی بھٹکے ہوئے مسافروں کے لیے امید کی کرن بن جاتی ہے جو ”طاہر زیر دام ” آشیاں سے دور ہو جاتے ہیں ،ہمت و کوشش سے بالاخر ایک دن اپنی اپنی منزل مقصود کو پہنچ جاتے ہیں ۔جدت اور تبدیلی صدیوں پر مبنی تہذیب و ثقافت کیساتھ ساتھ چلتی ہے ۔سمندر بننے کا سفر ایک بے ضررسے قطرے سے شروع ہوتا ہے بقول اقبال
جس میں نہ ہو انقلاب ،موت ہے وہ زندگی
روح اُمم کی حیات ،کشمکش انقلاب
بقول Samuel Butler،The History of art is the history of revivalsجب میںلاہور پریس کلب کے قریب واقعہ ایمبسڈر ہوٹل (Hotal Ambassador)پہنچا تو پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا خوش قسمتی میری یہ ہوئی کہ مجھے اپنے استاد اور عصر حاضر کے ممتاز دانشور اورخطیب پروفیسر رشید احمد انگوی صاحب کے ساتھ والی نشست پر بیٹھنے کا موقع مل گیا لیکن ہال میں اندر داخل ہونے سے پہلے برادرم حافظ محمد زاہد (کالم نگار) نے آگے بڑھتے ہوئے پاکستان کے جھنڈے والا بیج میرے سینے کے بالکل بائیں جانب لگا دیا، جب میں نے اس کی Locationپر غور کیا تو وہ بالکل چوتھی اور پانچویں Intercostal-Spaceپر موجود تھا جو جگہ سرخ پتھر ،یعنی دل کی ہوتی ہے ۔حافظ زاہد کا کہنا یہ تھا کہ یہ پاکستانی جھنڈا پاکستان سے محبت اور” بھائی لوگوں” کی پاکستان مخالف تقریر اور ان کی حرکتوں سے نفرت کا کھلم کھلا اظہار ہے یہ PFUCکی سالانہ چوتھی تربیتی ورکشاپ تھی جس کا مقصد نوجوان کالم نگاروں اور نوخیز لکھاریوں کو لکھنے اور مطالعے کی باریکیوں سے آگاہ کرنا تھا ۔PFUCکا قیام عمل میں لا کر چیئرمینPFUCعزیزم شہزاد چوہدری اور صدر برادرم فرخ شہبار وڑائچ نے نوجوان لکھاریوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کر کے احسان عظیم کیا ہے۔ PFUC کے قیام کے
بنیادی مقاصد میں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ،دو قومی نظریہ کا تحفظ ،علم و ادب کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ نو خیز لکھاریوں کو بلا سفارش سامنے لانا اور ان کی رہنمائی کرنا ہے کالم نگاری اب سالم نگاری کا روپ دھار چکی ہے ۔اسے جرنلزم میں Highest formکا درجہ حاصل ہے کالم در اصل Self Editorialہوتا ہے جو مشاہدے اور شدت احساس (Catharasis)سے پروان چڑھتا ہے ورکشاپ میں سینئر صحافیوں منو بھائی ،مجیب الرحمان شامی ،سجاد میر ،گل نوخیر اختر ،عامر خاکوانی ،اختر عباس
،پروفسر رفعت مظہر سمیت ملک بھر سے PFUCکے ممبر اور لکھاریوں نے شرکت کی ۔ کالم نگار عامر خاکوانی نے سیر حاصل گفتگو کی ۔ان کا کہنا تھا کہ کالم نگار کی کا ہنر Tip of the Ice Bergکی طرح ہے جو وہ لکھتا ہے وہ Tipہے لیکن دریا کی گہرائی در حقیقت اس کا اپنا مطالعہ ہوتا ہے اس کے علاوہ انہوں نے زبان کی بہتری ،مطالعہ کو بڑھانے، خیالات میں جدت لانے، پڑھے لکھے حلقوں اور ادبی بیٹھکوں میں شرکت پر زور دیا۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ بد قسمتی سے موجود ہ سسٹم میں نئے لکھنے والوں کے لیے جگہ نہیں بن رہی ، ہر دلعزیز لکھاری منو بھائی کا کہنا ہے کہ کالم نگاری زبان اور ایمان کا نام ہے کالم نگار درخت پر موجود گھونسلے میں بیٹھے ہوئے چڑیا کے بچے کی طرح ہے جو دوست اور دشمن دونوں کا مشاہدہ کر رہاہوتاہے، کشمیر کے ذکر پر میرے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے منو بھائی کا کہنا تھا کہ کشمیر کمیٹی کے موجودہ چیئرمین نے حضرت علامہ اقبال کی جگہ لے لی ہے یاد رہے کہ اقبال بھی کشمیر کمیٹی کے روح رواں رہے تھے جبکہ قائداعظم کی جگہ ”مرد مومن” مرد حق والوں نے لے لی ہے میرا استفسار پھر یہ تھا کہ ان کے” جانشینوں ”کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے تو سٹیج پر ساتھ ہی براجمان گل نوخیز اختر نے فورا ً کہہ دڈالا سارے اس میں شامل ہیں۔
کالم نگار گل نوخیز اختر کا کہنا یہ تھا کہ کالم نگاری لکھنے کا نام نہیں، پڑھنے کا نام ہے، محترم سجاد میر کاTriadیہ تھا کہ سوچو ،لکھو اور جیو یہی کالم نگاری ہے، ممتاز دانشور مجیب الرحمان شامی نے اپنی بذلہ سنجی سے محفل کو خوب رونق بخشی بالا کوٹ سے تشریف لائے PFUCکے ایک ممبر کا جب شامی صاحب سے تعارف کروایا گیا تو یہ کہہ کر انہوں نے اس کے اوسان خطا کر دیئے کہ آپ بالاکوٹ سے پیدل آئیں ہیں ؟یا پھر میر صاحب کا تعارف کروانے میں کمپیئر سے غلطی ہو گئی کہ فلاں اخبار میں کالم لکھنے سے سجاد میر نے شہرت پائی ہے تو شامی صاحب موقع کی تلاش میں تھے کہنے لگے اس اخبار میں جا کر تو میر صاحب نے” شہرت” خراب کی ہے ۔گل نوخیز اختر نے جب خاتون کمپیئر کو ازراہ مذاق اپنی Girl Friendکہا تو شامی صاحب بھلا کب خاموش رہنے والے تھے کہا وہ تو آپ کو Uncleسمجھتی ہے ۔ ایک موقع پر فرخ شہباز وڑائچ کو بھی ”شیخ الحدیث ”کہہ ڈالا،سب شامی صاحب کے چٹکلوںسے جی بھر کر لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ کالم نگاری کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ ا نداز بیاں اور اسلوب کا نام کالم نگاری ہے کالم کو ہلکا پھلکا ہی رکھیں ،ہر چیز کو کالم میں نہ لکھیں کچھ چیزیں قاری کوا پنا تجزیہ کرنے کے لیے بھی چھوڑ دیں انہوں نے یہ شعر بھی سنایا۔
انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے سیف
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
شامی صاحب نے کہا کہ آئندہ ورکشاپ میں نئے کالم نگاروں کو On The Spotلکھنے کے لیے کچھ Topicدیئے جائیں گے اور پھر ان کو چیکنگ اور مارکنگ ہو گئی ۔پوزیشن لینے والوں کو میں خود انعام دوں گا یہ انتہائی اہم تجویز ہے جس پر عملدرآمد ہونے سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے امید ہے کہ شہزاد صاحب اس نکتے کو ضرور ذہن میں رکھیں گے ۔حق اور باطل کی جنگ ازل سے ابد تک جاری رہے گی حق اور سچ کا پرچار کرنے والے سر پھرے ہر دور میں پائے گئے ہیں کبھی فیض صاحب کو خون دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھنا پڑا اور کبھی جالب صاحب کو یہ کہنا پڑا ۔
تو کہ نا واقفِ آدابِ شہنشاہی تھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
مشاہدہ کرنا تحقیق کرنا اور جو دل پر گزرے اس کو ایمان اور جرات رندانہ کیساتھ رقم کر دینا ہی اصل کالم نگاری ہے،شہزاد صاحب کا لگایا ہوا یہ پودا تن آور درخت کا روپ دھار چکا ہے،میں اسے PFUCفیملی لکھتا ہوں، مورخ جب خون دل لکھنے والوں کی فہرست بنائے گا تو شہزاد صاحب کو اس کا کریڈیٹ دیئے بغیر نہ رہ سکے گا۔ گو کہ یہ ورکشاپ تھی لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر سیمینار کا روپ نظر آیاکیونکہ اس میں چیئرمین شہزاد صاحب اور وائس چیئرمین پروفیسررفعت مظہر صاحبہ اپنے نقطہ نظر کو نئے لکھنے والوں سے شیئر نہ کرسکیں اگر یہ نہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا ہے،میڈیا ہائوسز کو نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، ہم اس جملے پر غور کیوں نہیں کرتے ،سچ لکھنا ہی اصل لکھناہے۔
تحری: عثمان غنی