تحریر۔۔۔ شاہد شکیل
پاکستان میں حقوق نسواں اور قانون پر عملداری نہ ہونے کے سبب خواتین کا جس طریقے سے استحصال کیا جاتا ہے اسکی مثال شاید ہی کہیں ملتی ہو بھارت یا دیگر ترقی پذیر ممالک کا تذکرہ اس لئے ضروری نہیں کہ ان ممالک میں خواتین کا احترام کیا جاتا ہے یا نہیں ہمیں سروکار نہیں ہونا چاہئے ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان میں کب تک خواتین اپنے حقوق ،تحفظ ،مقام اور آزادی کی جنگ لڑتی رہیں گی،گاؤں دیہات یا چھوٹے بڑے شہروں میں عام طور پر گھریلو خواتین تو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں لیکن اس ترقی یافتہ دور میں گھر کی چار دیواری سے باہر مثلاً اگر خواتین ٹیچنگ ،نرسنگ ،بینکنگ اور حتیٰ کہ ائیر ہوسٹس جیسے باوقار پروفیشن سے تعلق رکھتی ہیں تو بھی انہیں ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے
۔ قومی ائیر لائینز پی آئی اے سے سفر کرنا آج بھی اتنا ہی مقبول ہے جتنا کہ ستر یا اسی کی دہائی میں ہوا کرتا تھا اس زمانے میں فرینکفرٹ سے اسلام آباد نان سٹاپ فلائٹ ہونے پر جرمنی میں رہائش پذیر ہر پاکستانی قومی ائیر لائن سے ہی سفر کرتا تھاسب کی یکساں سوچ ہوتی کہ دورانِ سفر آپس میں بات چیت ہو گی ا ور اپنا کھانا بھی دستیاب ہو گا اکثر و بیشتر فرینکفرٹ ائیر پورٹ کے پی آئی اے کاؤنٹر پر بدمزگی اور تلخ کلامیاں بھی ہوتیں لیکن معاملات سلجھا دئے جاتے طیارے میں سموکنگ ممنوع تھی اور ٹیک اوف سے پہلے ہمیشہ اناؤنسمنٹ ہوتی کہ سیٹ بیلٹ باندھ لیں جب تک طیارہ درست پوزیشن میں نہیں آتا سیٹ سے نہ اٹھیں اور سموکنگ نہ کی جائے
بہ مشکل دس فیصد مسافر عمل کرتے اور دیگر طیارے میں چہل قدمی کرتے تقریباً ہر ایک کے ہاتھ یا منہ میں سگریٹ ہوتی کریوز کے بار بار منع کرنے کے باوجود من مانی جاری رہتی کئی اوباش اور دل پھینک مسافر ائیر ہوسٹس سے چھیڑ خانی بھی کرتے انہیں اپنی طرف آتا دیکھ کر جان بوجھ کہ کسی نہ کسی چیز کی فرمائش کی جاتی کسی بہانے ان کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش بھی کرتے کئی بار بات حد سے بڑھ جاتی تو تو تڑاخ سے بدمزگی پیدا ہوتی،آٹھ ساڑھے گھنٹے کی تھکان آمیز فلائٹ کے بعد اسلام آباد لینڈنگ سے قبل دوبارہ اناؤنس ہوتا کہ سیٹ بیلٹ باندھ لیں اور جب تک طیارہ مکمل طور پر گراؤنڈ نہیں ہوتا سیٹ کو نہ چھوڑیںلیکن ایسا کبھی ہوا نہیں جیسے ہی اناؤنس ہوتا افرا تفری پھیل جاتی ہر ایک کو اپنے سامان کے علاوہ اس بات کی عجلت ہوتی کہ اڑ کر سب سے پہلے دروازے تک پہنچے اور سب سے پہلے باہر نکلے دھکا مکی میں دیگر مسافروں کے سروں پر بیگ اور دیگر سامان پھینکا جاتا اور کبھی کسی نے معذرت نہیں کی کیبن کریوز اس دھینگا مشتی کو دیکھ کر طنزیہ مسکراتے
کچھ عرصہ بعد ایمیریٹس ،کویت اور قطر ائیر لائینز کا دور شروع ہوا تو وہاں بھی من مانی جاری رہی واش روم میں سموکنگ کی جاتی موبائل فونز کے استعمال پر پابندی عائد تھی لیکن ہر فرد اپنے موبائل کی نمائش کرتا۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق دورانِ پرواز بالخصوص ائیر ہوسٹس نے شکایات کا انبار لگا دیا ہر تیسری ائیر ہوسٹس دورانِ پرواز کئی بار مختلف طریقوں سے جسمانی اور ذہنی تشدد کا شکار ہوئی ،چونکہ ائیر ہوسٹس کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ دورانِ پرواز ہمیشہ مسافروں سے دوستانہ ،مہربان اور مسکراتے ہوئے پیش آئیںبھلے انہیں مشکلات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے،لیکن مسافر اکثر ان کے فرائض کو غلط انداز سے دیکھتے ہیں ایک سروے کے مطابق چھیالیس فیصد مرد مسافر انہیں دورانِ پرواز معنی خیز نظروں سے دیکھتے فلرٹ کرتے اور نازیبا الفاظ اد ا کرتے ہیں
معاملات اس وقت شدت اختیار کر جاتے ہیں جب مسافر نشے میں ہوں نشے کی حالت میں کوئی شرابی کمر کو سہلا دیتا ہے یا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچتا ہے حتیٰ کہ کئی بار بوسہ لینے کی بھی کوشش کی گئی،ان شرمناک واقعات و حادثات کو ائیر ہوسٹس نے انٹر نیٹ پر تفصیل سے بیان کیا ،فلائٹس کمیشن جو ہانگ کانگ فلائٹس اٹینڈینس الائینس کے ساتھ تعاون کرتا ہے نے نوے ہزار ائیڑ ہوسٹس سے دورانِ پرواز ہونے والے واقعات کے بارے میں سوالات کئے ،ستائیس فیصد ائیر ہوسٹس کا کہنا ہے کہ دورانِ پرواز مسافر جسمانی رابطہ حاصل کرنے کیلئے فحش مذاق اور جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں،چھیاسی فیصد کا کہنا ہے کہ آنکھوں کے اشارے اور ہاتھوں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے
جبکہ انیس فیصد کا بیان ہے کہ مسافر اپنے ساتھ لائے فحش میگزین یا موبائل فونز سے بھی عریاں تصاویر کی نمائش کرتے ہیں ،بہت سی ائیر لائینز کے عملے نے ان تمام واقعات کی شکایات سپر وائزر سے کیں لیکن کوئی تبدیلی رونما نہ ہو سکی، رپورٹ کے مطابق ائیر ہوسٹس کے احترام ،تحفظ اور ان واقعات پر قابو پانے کے لئے ہانگ کانگ ائیر لائینز اور چائنا ایسٹرن ائیر لائینز نے کیبن کریوز کو اپنی حفاظت کیلئے مارشل آرٹس کی تربیت دینا شروع کر دی ہے۔اب ایک نظر سٹیوورڈس کی شکایات اور نفرت پر کہ وہ دورانِ پرواز مسافروں کی کن حرکات سے نفرت کرتے ہیں۔سفری پورٹل سکائی سکینر نے پچاسی ممالک کے سات سو سے زائد انٹرنیشنل فلائٹ کریوز سے مختلف سوالات کئے جیسے کہ بورڈ پر آپ کو مسافروں کی کس چیز سے نفرت ہے؟
کن مسافروں کو بد اخلاق سمجھتے ہیں ؟ ائیر ہوسٹس کا کہنا ہے سب سے پہلے ہم ان مسافروں سے شدید نفرت کرتے ہیں جو ہمیں انگلی یا ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بلائے لیکن ہم برداشت کرتے ہیں۔ہمیں ان مسافروں سے بھی نفرت ہے جو لینڈنگ کے فوراً بعد اپنی سیٹوں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جبکہ سیٹ بیلٹ کے بندھے رہنے کی لائٹ آف نہیں ہوتی اور یہ لوگ اپنے بیگ اٹھائے دروازے کے پاس جا کھڑے ہوتے ہیںجب تک طیارہ مکمل طور پر رک نہیں جاتا اور اناؤنسمنٹ نہیں ہوتی ہمیں بھی اپنی سیٹ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔سامان کو زبردستی ٹھونسا جانا ہمیں بالکل پسند نہیں کیوں کہ بعد میں ہمیں دوبارہ کیرج بوکس کھول کر تمام سامان ترتیب سے رکھنا پڑتا ہے اور اس وجہ سے دیگر کاموں میں روکاوٹ پیدا ہوتی ہے
اسی بے ترتیبی کی وجہ سے دوسرے مسافروں میں تلخیاں پیدا ہوتی ہیں اور ہمیں بلایا جاتا ہے کہ جگہ نہیں ہے میں اپنا سامان کہیں اور رکھنا نہیں چاہتا اوپر جگہ خالی کرو وغیرہ وغیرہ۔کچھ جاہل مسافر اونچی آواز میں باتیں کرتے ہیں جس سے دوسرے مسافروں کو شدید کوفت ہوتی ہے اور آرام میں خلل پڑتا ہے پھر ہمیں بلایا جاتا کہ انہیں خاموش کروایا جائے کیوں گلا پھاڑ کر چلا رہے ہیں اس بات پر بھی تلخیاں پیدا ہوتی ہیں۔خواتین کی یہ عادت ہمیں بری لگتی ہے کہ سیٹ پر بیٹھتے ہی وہ تکیہ اور کمبل کی فرمائش کرتی ہیں
چاہے طیارے کا ٹمپریچر کتنا ہائی کیوں نہ ہووہ اس خوف میں مبتلا رہتی ہیں کہ کہیں تکیے اور کمبل کم نہ ہوں اور وہ ان سے محروم رہ جائیں۔صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا مونگ پھلی کے پیکٹ کھول کر بندروں کی چبانا شروع کر دیا جاتا ہے اور گندگی پھیلائی جاتی ہے اگرچہ نشست کی پاکٹ میں اتنی جگہ ہوتی ہے کہ چھوٹی پلاسٹک کی تھیلی اس میں ڈالی جا سکے بجائے اس کے نیچے پھینک دیا جاتا ہے کئی لوگ تو ناک صاف کرنے کے بعد نیپکن بھی نیچے پھینک دیتے ہیں علاوہ ازیں ہمیں ایسے مسافروں سے بھی نفرت ہے جنہیں فلائٹ میں سرو کئے گئے کھانے پسند نہیں آتے بار بار گھنٹیا ں بجائی جاتی ہیں کہ کھانا گرم ہے یا بہت ٹھنڈا ہے گرم کر کے لائیں اور ایسے مشروبات طلب کرتے ہیں جو ممنوع ہیں یا ہمارے مینو میں دستیاب نہیں ہوتے۔
خواتین کا احترام ہر مرد پر لازم ہے جو لوگ خواتین کا احترام اور ان کی عزت نہیں کرتے انسان کہلانے کے لائق نہیں کسی بھی خاتون کے ساتھ بد اخلاقی ،بد تمیزی یا ہوس بھری نظر ڈالنے سے پہلے سوچ لینا چاہئے کہ وہ کسی کی ماں ، بہن یا بیٹی کے علاوہ ایک عورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ایک اعلیٰ مقام ،رتبہ اور درجہ دیا ہے۔
تحریر۔۔۔ شاہد شکیل