تحریر : ایم آر ملک
خوشاب میں آنے والا سیلاب غیر دانستہ فعل نہیں یہ بد عنوان اور نااہل بیورو کریسی کا کیا دھرا ہے ۔مگر کیا ڈی سی او میانوالی کا احتساب ہو سکے گا ؟جس نے خوشاب کے باسیوں پر یہ قیامت ڈھائی ۔مٹھہ ٹوانہ کا ملک جہانزیب ٹوانہ اچانک در آنے والے ریلے کو ایک ہولناک کیفیت قرار دینے میں حق بجانب ہے ۔خوشاب کے وہ باسی جن کے گھر زمین بوس ہو گئے کی دھان کی فصل تباہ ہو چکی تاحد نظر پانی میں گھرے انسانوں کو ڈینگی ،ہیضے کا موذی مرض اپنی وبائی قہر سامانی سمیت نگلنے کیلئے ایک سفاک خطرے کے طور پر منڈلا رہا ہے ۔ایک زہریلے عدم تحفظ اور بے یقینی کے احساس نے بر باد معیشت کے کثیر طبقہ کو اپنی طاقت ور بانہوں میں جکڑ رکھا ہے۔ اور بیورو کریسی نے انسانیت کے عظیم احساس کو مفاد پرستی اور حرص کی گہری کھائی میں دفن کر دیا ہے۔ جابجا بکھرے خانماں برباد انسان نام نہاد عوامی نمائندوں کی بے حسی کامنہ بولتا ثبوت ہیں۔
اعلیٰ خدمت کے دعویداروں نے عیسیٰ خیل یاترا میں اربوں کے فنڈز کا اعلان بھی محض اس لئے کیا کہ یہ اُن کے حقیقی حریف کا آبائی حلقہ ہے ۔خوشاب میں لایا جانے والا سیلاب تباہی کی ہیئت میں لیہ ،راجن پور ،ڈیرہ غازیخان ،مظفر گڑھ سے زیادہ تو ہو سکتا ہے کم نہیں ۔مگر پنجاب کی نااہل بیورو کریسی یہ تعین کرنے سے قاصر رہی کہ پانی میں ڈوبا ہوا علاقہ جو شادیہ سے لیکر جوہر آباد کی فصیلوں سے ٹکرا رہا ہے اور کسی سمندر سے کم نہیں کو سیلاب زدہ علاقہ ڈیکلئر کر دیا جائے ۔پانی میں گھرے عوام کی سلگتی نظریںآج بھی میڈیا پر لگی ہوئی ہیںجس نے عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کی قبا پہن کر محرومی کے احساس کو جنم دیا ۔پرائیویٹ نیوز چینلز کی سکرین پر ہنگامی بنیادوں پر دکھایا جانے والا یہ منظر پس منظر میں چلا گیا۔
اوپر سے منتظم ضلع خوشاب ڈی سی او خوشاب کی عوامی بے گانگی ،بے حسی اور نفسیاتی ضعف نے اس انسانی المیہ کو مزید مضحکہ خیز بنا دیا۔ ضلع بھر میں 300میل سیم نالوں کا سسٹم پھیلا ہوا ہے جس کی صفائی ہر تین سال بعد قواعد و ضوابط کے تحت لازمی ہے مگر 15برس کا طویل عرصہ گزر گیا اور یہ سسٹم صفائی کے مراحل تک نہ پہنچ سکا ماضیکے ذمہ دار ادارے ”سکارپ ”کی گردن نااہلیت نے کاٹ دی اور ان سیم نالوں کے ساتھ منسلک ٹیوب ویلز کا نظام کرپشن نگل گئی ۔آفت زدہ سیلاب کا رخ ڈی سی او میانوالی کی ہدایت پر شادیہ کے مقام پر بند نہر مہاجر برانچ میں کٹ لگا کر خوشاب کی طرف موڑا گیا۔لنک نہروں میں جن کے پشتے سالہا سال سے کمزور تھے جبکہ برداشت ،گنجائش اور مقدار سے زیادہ پانی نے ان کے پشتوں میں اپنی طاقت سیشگاف ڈالے۔
مثلامین مہاجر برانچ سے چھوٹی لنک مہاجر برانچ جس کی گنجائش 500کیوسک تھی 600کیوسک پانی آگیا ،70کیوسک کی حامل دھوریاں نہر میں125کیوسک پانی نے اپنا زور دکھایا ،350کیوسک والی ہڈالی برانچ 400کیوسک سے اوور فلو ہوئی جبکہ250کیوسک کی حامل نور پور نہر میں 300کیوسک پانی کا ریلا آیا تو مذکورہ نہریں پانی کی شدت سے یوں ٹوٹیں کہ نواحی علاقوں تحصیل قائد آباد کا شہری علاقہ ،اوکھلی موہلہ،مٹھہ ٹوانہ ،بوتالہ ،چراغ بالی کا ہڈالی شہر پانی میں ڈوب گئے۔ فصلات سے لہلہاتے کھیت تباہہوئے اور مکانات زمین بوس۔ عوامی نمائندگی کے دعویدارایک حکومتی ایم پی اے نے البتہ اپنے آبائی گائوں کو یوں بچایا کہ نکاسی آب کے وہ ذرائع جن سے یہ پانی سیم نالے میں داخل ہونا تھابند کرادیئے
پانی کا رخ مذکورہ شہروں کی طرف ہو گیا ،کوئی حکومتی وزیر اور مشیر اتنی بڑی تباہی پر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سیلاب میں گھرے خوشاب کے عوام کی ذلتوں کا فضائی تماشا بھی دیکھنے نہ آیا راتوں رات سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں اُگ آنے والی این جی اوز اور حکمرانوں کے بے ہودہ دعوے نظر دھرے کے دھرے رہ گئے ،اس سیلابی پانی سے بچائو کیلئے بھاگ دوڑ کرنے والوں کی پکار ،بے گھر ہوتے لوگوں کی چیخوں کی گونج کانوں میں باقی ہے۔ رات کے سناٹے میں محو خواب جنہیںیہ علم نہیں تھا کہ تباہی اُن کے دروں پر دستک دینے والی ہے۔
یہ تباہی بزبان ِ حال کہہ رہی ہے کہ پنجاب کا خادم اس سلسلے میں کوئی کمیشن تشکیل دے گا ؟ اپنی لے پالک بیورو کریسی پر ہاتھ ڈالے گا ؟اور میانوالی کا وہ ڈی سی او جو اتنی بڑی تباہی لانے کا ذمہ دار ہے کے گرد احتساب کا شکنجہ کسے گا ؟کیاسینیٹر ڈاکٹر غوث نیازی ،ملک کرم الٰہی بندیال یا این اے 69کے ضمنی الیکشن میں جعلی مینڈیٹ سے فرزندِ خوشاب ملک عمر اسلم اعوان کے مدمقابل درآمد شدہ اُمیدوار عزیر خان ہوتی
ان متاثرین کی آواز ایوان ِ بالا یا ایوان ِزیریں میں بنے گا کیا ان تینوں عوامی نمائندوں جن کے سینیٹ ،صوبائی اور قومی حلقوں میں معاشی و معاشرتی تباہی کا سیلاب آیا کو اپنے عوام کے دکھوں کا ادراک ہے ؟مجھے 7مارچ 2011کو فلڈ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کا وہ فیصلہ یاد آرہا ہے جس میں متعلقہ کمیشن نے سیلاب 2010میں ہونے والی بدترین تباہی کا ذمہ دار حکومت پنجاب کی افسر شاہی کو ٹھہراتے ہوئے لکھا تھا کہ ”سیلاب کے ذمہ داران افسران کو برطرف کرکے اُن کے خلاف کارروائی کی جائے
مگر عدلیہ کے فیصلوں کو ماننے کی علمبردار حکومت کی سرپرستی میں یہ مجرم افسر شاہی آج بھی اپنی نشستوں پر بڑے طمطراق سے بیٹھی موجودہ سیلاب میں اپنی کرپشن کا پیٹ بھرنے میں مصروف ہے۔ ملک عزیز الرحمان شلولی ٹوانہ کی سچائی کا میرے پاس کوئی جواب نہیں جس کااپنا شہر پانی میں ڈوب گیا مگر اُسے شادیہ سے لیکر جوہر آباد کی فصیلوں تک اُجڑنے والو ں کا غم ہے۔
میرے پاس جہانزیب ٹوانہ کی اس دور اندیشی کا جواب بھی نہیں جس نے ایک روز ظفراللہ خان ڈھانڈلہ کے پاس بیٹھے ہوئے کہا تھا کہ اگر سیم نالوں کی صفائی نہ ہوئی تو خوشاب کو سیلاب سے کوئی نہیں بچا سکے گا ۔مربی جمشید ساحل نے عرصہ پہلے کہا تھا !
پانی بھی تماشا ہے
کبھی آنسو بنا تو کبھی سیلاب
جو میرے ارمان بہا کر لے جاتا ہے
تحریر : ایم آر ملک