تحریر: میر افسر امان کالمسٹ
پاکستان میں ہر سال سیلاب آتے رہتے ہیں۔ عوام تکالیف برداشت کرتے رہتے ہیں۔ سال و ماہ گزر جاتے ہیں عوام پھر سے تازہ دم ہو کر اپنی زندگی کے معاملات چلانے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور ایسے ہی زندگی کے شب و روز رواں دواں ہیں۔مون سون بارشیں کہیں رحمت کا باعث بنتی ہیں اورکہیں زحمت کا باعت بنتی ہیں۔ ساری دنیا میں سیلابوں سے انسانی آبادیوں کو بچانے کے لیے لوگ خود اور حکومتیں کوششیں کرتے ہیں۔ پاکستان میں دریائوں کے کنارے آباد بستیوں کو ہمیشہ سیلاب سے نقصان پہنچتا ہے۔ اس طرح نشیبی علاقوں میں آباد بستیوں کو بھی سیلاب سے نقصان پہنچتا ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی لوگ ان جگہوں پر آباد ہوتے ہیں۔ کیا کیا جائے یہ ان لوگوں کی مجبوری ہے کہ زندگی گزرانے کے امکانات بھی یہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ عوام کی ان ہی مجبوریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومتیں انسانی بستیوں کو بچانے کے لیے حفاظتی تدبیریں اختیار کرتی ہیں۔ کہیں بند بھاندے جاتے ہیں۔ کہیں بیراج بنائے جاتے ہیں اور کہیں ڈیم تعمیر کئے جاتے ہیں۔
بارشوں کے موسم میں فاضل پانی کو ذخیرہ کیا جاتا ہے اس سے سیلابوں کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے اور خشک موسم میں یہی پانی آبپاشی کے لیے استعمال کے کیا جاتا ہے ۔ ہمارے ملک کا یہ المیہ رہا ہے کی تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد کوئی بڑا ڈیم نہیں بنایا گیا اس وجہ سے بھی سیلابوں کا ہر سال سامنا رہتا ہے۔ اس سال ملک بھر میں بارش اور سیلاب سے سیکڑوں دیہات ڈوب گئے۔ردجنوں افرداد بھی بھی ہلاک ہو گئے۔ مون سون بارشوں سے پنجاب، آزاد کشمیر،خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں سیلاب نے تباہی مچا دی۔ یہاں تک امدادی کاموں میں پھرتی دیکھانے کا تعلق ہے تو ہماری سول حکومت کا تعلق ہے وہ اس مشکل کے وقت میں ہماری فوجی قیادت سے حسب معمول پیچھے رہ گئی ۔ جبکہ ہماری فوج کے سپہ سالار نے اپنے کور کمانڈرز کو حکم دیا ہے کہ وہ سیلاب زدہ پاکستانی عوام کی خدمت میں مصروف ہو جائیں۔ تمام سیلابی علاقوں میں کور کمانڈرز نے اپنے اپنے علاقوں میںفوراً امدادی کاموں میں فوجی جوانوں کو لگا دیا ہے۔
اس سال مون سون بارشوں کی وجہ سے خیبر بختونخواہ کے علاقے چترال میں بہت زیادہ تباہی مچائی۔ کلاش شہر کا علاقہ سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ ندی نالوں پر بنے ہوئے ٤٠ پلوں کو سیلابی ریلے بہا کر لے گئے جس سے آبادی کی نقل حرکت بند ہو گئی۔ ٤٠٠ دیہات متاثر ہوئے۔ سڑکوں اور فصلوںکوشدیدنقصان پہنچا۔خوراک کم پڑ گئی اور کہیں بل لکل ختم ہو گئی۔ پاک فوج نے غذائی اشیاء تقسیم کیں۔متاثرہ علاقوں میں ١٦ ٹن راشن تقسیم کیا جا چکا ہے ۔ سیلاب میں پھنسے٧٣ سے زائدلوگوں خاص کر بوڑھوں اور بچوں کو محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا۔ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ جناب پرویز خٹک نے کروڑوں روپے چترال کی بحالی کے لیے جاری کر دیے آج ہمارے وزیراعظم جناب نواز شریف بھی چترال پہنچے ہیں۔
وہ بھی چترال میں سیلاب کی تباہی کی وجہ سے بہہ جانے والے رابطہ پلوں اور سڑکوں کے لیے بھی امداد کا اعلان کریں گے۔ انہوں نے اس سے قبل لاہور میں این ڈی ایم اے اور دیگر اداروں کو فوراً سیلاب زدگان کی مدد کے احکامات جاری کر دیے تھے۔ یہ بھی کہا ہے کہ انہیں لمحہ با لمحہ صورت حال سے باخبر رکھا جائے۔ اسکردو میں تودہ گرنے کے باعث ٦ کوہ پیما لا پتا ہو گئے۔ دریائے سندھ میں طغیانی کے باعث ٥٠ سے زائد گائوں ڈوب گئے۔ مکینوں کی محفوط مقامات پر نقل مکانی شروع ہو گئی۔ جنوبی پنجاب میں بھی سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔مظفر گڑھ کے پاس چناب کا پانی بستیوں میں داخل ہو گیا ہے۔ رنگ پور میں اس سے قبل سیلاب میں تباہی کے وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے بند بنانے کا اعلان کیا تھا مگر نہ بند بنا اور نہ ہی اُس کے لیے فنڈ رکھے گئے تھے جس کی وجہ سے لوگ شکائتیں کرتے ہوئے ٹی وی پر دیکھے گئے۔
امید اس دفعہ وزیر اعلیٰ پنجاب اس پر عمل کریں گے۔ سندھ میںگھوٹکی کا سیلاب کے باعث دوسرے علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا۔ بالائی علاقوں میں غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے محکمہ موسمیات نے فلڈ وارنگ جاری کر دی ہے۔نالہ لئی کی سطح بلند ہو گئی ہے گوالمنڈی کے مقام پر پانی کی سطح ١٠ فٹ اور کٹاریاںکے مقام پر ١١ فٹ ہے۔۔قریبی آبادیوں کو انخلا کی ہدایات کردی۔ دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم اور خان پور ڈیم میں پانی کے سطح بلند ہونے پر اسپل ویز کھول دیے گئے ہیں۔فلڈ فور کاسٹنگ ڈویژن کے مطابق تربیلا یم مین پانی کی سطح ١٥٢٦ اور١ فٹ ہو گئی ہے۔ تربیلا میں پانی کی آمد٣ لاکھ ٤٩ ہزار کیسک رکارڈ کی گئی ہے۔منگلا ڈیم میںپانی کی سطح ١٢٣٤ فٹ ہو گئی ہے۔
پانی کی آمد٧١ ہزار٧٢٩ اور اخراج ٦٠ ہزار کیوسک۔ دریائے کابل میں ورسک اور نوشہرہ کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔ ورسک میں پانی کا بہائو٥٠ ہزار٩٢٠ کیوسک اور نوشہرہ میں ٩٤ ہزار ٦٠٠ کیوسک رکارڈ کیا گیا ہے۔اٹک کے مقام ہر دریائے سندھ میں نچلے درجے کا سیلاب ہے۔پانی کا بہائو ٤ لاکھ ٨٠٠ کیوسک رکارڈ ٢ کیا گیا ہے۔ دریائے سندھ میں کالا باغ ،چشمہ،اور تونسہ کے مقام پردرمیانے درجے کا سیلاب ہے۔جبکہ گدو کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب ہے۔راجن پور میں کوہ سیلمان کے ندی نالوں میں طغیانی کے باعث لوگ نقل مقانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔اسلام آباد میں راول ڈیم میں پانی کی سطح بلند ہونے پر سپل کھول دیے گئے ہیں۔ راول ڈیم میں پانی کی انتہائی سطح ١٧٥٢ فٹ ہے۔ ڈی جی میٹ نے کہا ہے کہ چترال میں سیلاب کی وجہ بارشیں نہیں بلکہ گلیشئر پگھلنے کی ہے جس کی پیش گوئی کی گئی تھی۔تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان صاحب نے چترال کے دورہ کرنے کا کہا ہے اور خیبر پختونخوا حکومت کو کہا ہے کہ چترال میں فوری ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے۔
پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری نے کارکنوں کو کہا ہے کہ چترال میں سیلاب زدگان کی کی امدادی کاروائیوں میں شریک ہوں۔وزیر اعلیٰ شہباز شریف صاحب نے بھی کہا کہ پنجاب کی حکومت چترال کے عوام کے ساتھ ہے۔ آزاد کشمیر حکومت نے بھی چترال کے عوام کے لیے امداد کا اعلان کیا ہے۔جماعت اسلامی نے چترال متاثرین کے لیے فوڈاسکیم کااعلا ن کردیاہے۔ حسب روایات ملک کی فلاعی تنظیموں کو بھی اس مشکل کی گھڑی میں اپنے پاکستانی بھائیوں کی مدد کے دل کھول کر سامنے آنا چاہییے۔ ٹی وی اور اخبارات کے مالکان کو بھی اپنے اسٹاف کو ہدایات دینی چاہیے کی اس قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم کو اپنے پروگراموں اور کالموں کے ذریعے تیار کریں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ پاکستانی قوم کی اپنی جناب سے مدد فرمائے آمین۔
تحریر: میر افسر امان کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی)