تحریر : عقیل خان
برسات کا موسم شروع ہوتے ہی پاکستان میں سیلابوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔جس سے ہربار ملک بھر جانی نقصان کے ساتھ ساتھ کروڑوں روپوں کا مالی نقصان بھی ہوتا ہے ۔ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ختم ہوتے ہی پاکستان میں مون سون بارشوں نے اپنا گھر بسا لیا۔بارش پہلے رحمت اور بعد میں زحمت بن گئی ۔بارشوں کے ساتھ ساتھ پہاڑی علاقوں میں برف پگھلنے سے دریاؤوں میں طغیانی آگئی دوسری طرف ہمارے ازلی دشمن بھارت نے بھی دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا۔ اس وقت پاکستا ن میں ہرطرف سے سیلاب کی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔پنجاب، سندھ اورگلگت میں سیلاب نے تباہی مچا ہوئی ہے۔سیلاب نے ایک بار پھر عوام کو دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ قدرتی آفات کے باعث بہت سے افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور بے گھر ہونے والے افراد کی تعدادکا اندازہ لگانا ابھی ممکن نہیں۔ فصلیں تباہ اوربہت سے جانور سیلاب کی نظر ہوگئے۔
آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے ہمارے ملک میں بہت سے لوگ زیر عتاب ہیں۔ابھی ضرب عضب کے متاثرین کی بحالی کا کام مکمل نہیں ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک اور آزمائش میں ڈال دیا۔ہماری آزمائش تو جیسی ہوگی وہ تو ہے مگر ہمارے فوجی بھائیوں کو اب ایک اور محاذ پر نبردآزما ہونا پڑ رہا ہے۔پاکستان ویسے تومسائلوں کی وجہ سے پہلے ہی مسائلستان بنا ہوا ہے مگر اب اس وقت ملک میں اہم ترین مسئلہ سیلاب کاہے۔پاکستان میں ہر سال سیلاب آتا ہے اور اس میںہم اپنا بہت زیادہ نقصان کراتے ہیں۔ جہاں حکومت کو اس سیلاب سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں وہاں ہم کو بھی اپنی مدد آپ کے تحت بھی کچھ کرنا چاہیے ناکہ آنکھیں بند کرکے سیلاب کا انتظار کرنا چاہیے۔
میں نے بہت سے علاقوں میں سیلابی نہروں کو ختم کرکے زرعی رقبے میں شامل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ جو نہریں سیلاب کے لیے بنائی گئی تھیں ان کو لوگوں نے اپنے استعمال میں لے لیا ہے۔ یہی نہیں دریاؤوں کے قریب خشک جگہوں پر لوگوں نے نہ صرف کاشتکاری شروع کردی بلکہ اپنے رہائشی گھر بنالئے ہیں۔ جب ہم لوگ سیلابی نہروںیا دریاؤوں پر اپنی موت کا سامان خود رکھ رہے ہیں تو اس میں حکومت یا انتظامیہ کا کیا قصور؟جب ہمارا دشمن دریاؤوں میں پانی چھوڑتا ہے تو وہ کبھی نہیں بتاتا کہ پانی کب اور کس وقت چھوڑا جائے گا؟ جب پانی پاکستان میں داخل ہوجاتا ہے تو پھر حکومت اس پانی سے عوام کوبچانے کے لیے سیلابی نہروں کے ذریعے ادھر اُدھر کرتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیلابی نہریں تو زرعی رقبے میں شامل ہوچکی ہیں۔جس کی وجہ سے پانی ان سیلابی نہروں کی بجائے دیہاتوں میں پھیل جاتا ہے۔ اصولاً تو جب کوئی زمیندار سیلابی نہروں کو اپنی زمین میں شامل کرتا ہے تو ہمیں خود ان کو روکنا چاہیے مگر ہم لوگ اس وقت خاموش تماشائی بن جاتے ہیں اور پھر بعد میں ساراملبہ انتظامیہ پر ڈال دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے مطابق قدرتی آفات سے پہلے انتظامات پر جہاں ایک ڈالر خرچ آتا ہے، وہاں آفات کے بعد کئی ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قبل از آفات انتظامات نہ کرنے سے خرچہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور جانی نقصان اس کے علاوہ ہوتا ہے۔ مگر کیا کہنے ہماری حکومتوں کے۔ تاریخ گواہ ہے کے پاکستان میں ممکنہ خطرات کے پیش نظر کبھی بھی کوئی انتظامات دیکھنے کو نہیں ملے۔ہمارے ملک میں ایک اور چیز بھی عام ہے، وہ ہے کچی آبادیاں، جس کو عوام اپنا حق سمجھتی ہے اور انتظامیہ بھی اس قسم کے تجاوزات کی جانب توجہ نہیں دیتی۔ میرے اپنے شہرسے گزرنے والی بی ایس لنک نہر کے کنارے عوام نے ناجائز قبضہ کرکے مکانات تعمیر کیے ہوئے ہیں۔ اگر اب خدانخواستہ پانی کی سطح اس نہر میں زیادہ ہوجائے اور کوئی جانی یا مالی نقصان ہوجائے اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ پھر وہی آلاپ راگناکہ حکومت نے کچھ نہیں کیا مگر خدارا پہلے یہ تو سوچئے کہ تم نے جو کام کیا ہوا ہے کیا وہ ٹھیک ہے۔
جہاں ہماری اپنی غلطیاں یا کمزوریاں ہیں وہاں حکومت بھی اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نہیں نبھا رہی۔تمام ترقی یافتہ ممالک میں ممکنہ خطرات کے پیش نظر پیشگی انتظامات کیے جاتے ہیں جبکہ ہمارے پاس پیشنگوئی کے باوجود کوئی انتظامات دیکھنے کو نہیں ملتے۔ سیلابی تباہ کاریوں کے بعد بجائے اس کے کہ کمزوریوں اور غلطیوں سے سبق سکھ کر مستقبل میں ایسی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے کوئی پالیسی بنائی جائے، ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف الزامات کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔
جب تک ہمارے ملک میں قوانین سنجیدگی سے نہیں بنیں گے، اور ان پر عملدرآمد نہیں ہو گا، ہم ہردفعہ ایسے ہی نقصانات کا سامنا کرتے رہیں گے۔یاد رکھیں سیلاب متاثرین کو حکومت سے زیادہ ہماری ضرورت ہوتی ہے کیونکہ حکومت کی مدد سیلاب متاثرین کے لیے نا ہونے کے برابر ہے۔مگر جو مدد ہم لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بروقت کرسکتے ہیں وہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے۔ آمین
تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com