counter easy hit

پلندری

سرزمینِ پلندری کو فردوس بریں سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے اور نہ سویزر لینڈ سے۔ یہاں بنجوسہ اور شونٹر جیسی جھیلیں ہیں، نہ ہی تولی اور چناسی جیسی چوٹیاں۔ اس کے کوہستانوں کے دامن میں چشمے، جھرنے اور آبشاریں تو موجود ہیں لیکن انہیں کوٹلی کے ٹھنڈے اور تتّے پانیوں جیسی پذیرائی نہیں مل سکی۔ چوکی نما قلعہ بارل کی باقیات رام کوٹ اور ریڈ فورٹ کے ثقافتی ورثے کا مقابلہ نہیں کرتیں۔ ایک رانی کی باؤلی ہے جس کی سیر کے بعد ہمارے میزبان ہمیں پلندری کا نظارہ کرانے ڈنہ ناگیشور کی بلندیوں کی طرف لے گئے۔

ڈنہ اور ناگیشور الگ الگ جگہیں ہیں۔ پہاڑی زبان میں ڈنہ پہاڑی پر آباد گاؤں کو کہتے ہیں۔ جب کہ ناگیشور ناگ اور ایشور کا مرکب ہے جس کے معنی ہیں ایشور (خدا) کا چشمہ۔ راج ترنگی کے حاشیے میں ٹھاکر اچھر چند شاہپوریہ لکھتے ہیں کہ کشمیری زبان میں ناگ سے مراد وہ محافظ دیوتا ہیں جو وادی کشمیر کے چشموں اور جھیلوں میں رہتے ہیں۔ پلندری کی اس پہاڑی چوٹی پر بھی ایک ایسا ہی چشمہ ہے جس کے باعث یہ ناگیشور کہلاتا ہے۔

چھ ہزار چھ سو فٹ سے بلند ناگیشور ”ادھوری جنت۔ کشمیر” کا مشرقی محافظ ہے۔ یہ قامت میں اپنے بہن بھائیوں حاجی پیر، گنگا چوٹی، تولی پیر اور سدھن گلی سے چھوٹا ہے۔ ان سب میں اپنے بابا پیر پنجال اور عظیم المرتبت دادا ہمالیہ کی عظمت جھلکتی ہے۔

ڈنہ ناگیشور اور دیگر جگہیں مقامی لوگوں کی چراگاہیں ہیں۔ ہزار سال پہلے بھی ان کا یہی مصرف تھا اور آج بھی یہی مصرف ہے۔ انہیں نسیم، نشاط، نگین اور شالیمار میں بدلا جا سکتا تھا۔ لیکن کشمیر پر تمام حملہ آوروں کا مقصد اس کا حسن کشید کرنا تھا۔ کشمیریوں کا کام مورجھل جھلنا اور ان کی پالکیاں اٹھانا تھا۔

ڈنہ ناگیشور کی طرف جاتے ہوئے پوٹھی، گھوڑا اور کئی دیگر مقامات سے پلندری شہر کا دلکش نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسی جاذبیت اور جمال کم کم شہروں کے نظاروں کو میسر ہے۔

چونکہ مغل سری نگر جانے کے لیے مغل روڈ یا پکھلی روڈ کا استعمال کرتے تھے۔ اس لیے یہاں عطر شیشہ جیسے ناموں کے بجائے سنگڑھ، نالینڈہ، کوٹیڑہ، اوطانہ، اور بگلہ جیسے نام عام ملتے ہیں۔

سدھنوتی میں ہموار چٹانیں (پڑاٹیں) کافی زیادہ ہیں۔ یہاں ایک کان نکالے کھڑی پڑاٹ کا نام ہی کنکڈی ہے۔ پلندری کا ایک ویو پوائنٹ اپنی نوکیلی چٹان کے باعث دھار دھرچھ کہلاتا ہے۔ بیٹھک اعوان آباد تو آباد ہی ایک پڑاٹ پر ہے۔

 

پوٹھی سے نیچے شہر کی طرف نگاہ کریں تو کیڈٹ کالج اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔ اس کے علاوہ، اسٹیڈیم، پوسٹ گریجویٹ کالج اور دیگر تعلیمی ادارے واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ بابائے پونچھ نے مٹھی آٹا اسکیم سے اے بی سی کا جو سفر شروع کیا تھا وہ کب کا سی ایس ایس اور پی ایچ ڈی تک پہنچ چکا ہے۔ اب تو ہر طرف علم کے چشمے اور شعور کی آبشاریں ہیں۔

کیڈٹ کالج پلندری میں تین جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ پلندری کی فضاؤں نے گزشتہ پانچ سو سال میں مختلف رنگوں، نشانوں اور عبارتوں والے جھنڈے دیکھے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر جبر کا جھنڈا سر بلند رہا ہے۔ مغل، افغان، خالصہ، ڈوگرہ تہہ بہ تہہ اندھیروں کے نام ہیں۔ کچے گھر، پول کے چپل، بکریاں، ساگ، چٹنی۔ پہاڑیوں کی صدیاں ایسے ہی گزر گئیں۔

پہاڑوں پر آباد مخلوق کسی جلال الدین، جہاں گیر و جہاں نور کے لیے نہیں کسی پیغمبر کے لیے اہم ہو سکتی ہے۔ مسیحا نے ایک پہاڑی وعظ میں اپنے شاگردوں سے کہا تھا کہ تم دُنیا کا نُور ہو۔ جو شہر پہاڑ پر بسا ہے وہ چھپ نہیں سکتا۔

‏پلندری کے منظر نامے میں فون کمپنیوں کے ٹاورز نمایاں ہیں۔ کوٹلی کی طرح یہاں مساجد کے گنبد اور مینار دکھائی نہیں دیتے۔ لیکن یہاں مذہب کا رنگ کافی گہرا ہے۔ کچھ حماموں کے باہر جلی الفاظ میں لکھا ہے کہ یہاں شیو نہیں بنائی جاتی۔ اس لیے حنائی اور خصابی داڑھیاں عام ہیں۔

موجود میناروں میں مدرسہ اسلامیہ کے مینار نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ جنہیں دیکھ کر دھیان بلبل شاہ کاشمیری سے مولانا حسین احمد مدنی کے شاگردِ رشید مولانا یوسف خان کی طرف جاتا ہے۔

انتہائی دائیں جانب ٹاورز کا جھرمٹ دکھائی دے رہا ہے۔ یہ ”دھار دھرچھ” ہے جہاں سے دریا پار تحصیل کہوٹہ کے پہاڑی علاقے (سابقہ گکھڑ سٹیٹ) کا خوبصورت نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ کسی گکھڑ حکمران نے کبھی ادھر نہیں دیکھا۔ حالانکہ گوہر نامہ بتاتا ہے کہ مغلوں سے قبل گکھڑ جموں تک کامیاب حملے کرتے رہے ہیں۔

پلندری پُر فضا ہے۔ یہ زیادہ پُر فضا ہو جاتی ہے جب موسمِ برسات میں گنگھور گھٹائیں اچانک ناگیشور کو گھیرتی ہیں۔ ادھر آسمان گرجتا ہے ادھر پلندری کے نالے، جھرنے اور آبشاریں انگڑائی لیتے ہیں۔ ہم بہار کی گلرنگ پلندری سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جنگلی خوشبوں، پرندوں کی چہکار اور جھینگروں کی جنجھار نے ماحول کو اٹھایا ہوا تھا۔

پتھریلی پلندری میں سبز سونے کی بہتات ہے۔ جڑی بوٹیاں، جنگلی جھاڑیاں، جنگلی انار، سنبل، کاہو، بھیکڑ، بکائن، بیاڑ۔ ۔ ۔ ہر قسم کے درخت موجود ہیں۔ لیکن حاکمیت چیڑ کی ہے۔ جس نے پتھریلی پلندری پر دلکش پردہ ڈالا ہوا ہے۔ پلندری اور اس کے اطراف میں آپ جہاں جائیں گے اس سدا بہار اور دراز قامت کو اپنا ہم سفر پائیں گے۔

پلندری کے موسم کی طرح اس کے لوگ بھی دل نواز، دلیر اور خود دار ہیں۔ آئینِ اکبری میں ابوالفضل نے لکھا ہے کہ تعجب ہے کہ ملک بے حد آباد اور سرمایہء زندگی قلیل ہے پھر بھی ملک میں چوری اور گداگری بہت کم ہے۔

یہاں کی زبان پہاڑی اور گوجری کی آمیزش ہے۔ آپ اس شیرینی کو کسی حد تک محسوس کرنا چاہتے ہیں تو حدیقہ کیانی کی آواز میں یہ گیت سن لیجئے۔

منے دی موج وچ ہنسنا، کھیڈنا، دل کی رکھنا کمے کنے
میں پر کسے کی مندا نئیں بولنا، چنے دی چاننی چنے

پوٹھی سے آگے وہ علاقہ شروع ہوتا ہے جہاں ناگیشور ٹورسٹ ریزارٹ کی بازگشت گزشتہ کئی سالوں سے سنائی دے رہی ہے۔ 2016 میں سہ روزہ سدہنوتی ٹورازم فیسٹیول کے کچھ ایونٹس کا انعقاد بھی اسی جگہ ہوا۔ جن میں نکر پوٹھی سے پلندری اسٹیڈیم تک پیراگلائیڈنگ کا مظاہرہ شامل تھا۔

نالیاں کے مقام پر جھیل کی جگہ مارک ہو چکی ہے۔ جانے اس کام کے لیے ستر سال کیوں انتظار کیا گیا؟ اگر صرف پانی روک دیا جاتا تو یہاں سیاحوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے۔

جھیل کی لوکیشن سے سیف الملوک کا تاثر ابھرتا ہے۔ ہمارے ہم سفروں میں اردو کے شعلہ بار شاعر کرنل شہاب عالم قریشی بھی تھے۔ انہیں دیکھ کر خیال کی جھیل میں ان کا یہ شعر تیرنے لگا؎

جھیل سیف الملوک نے پوچھا
جو تیرے ساتھ ہے، پری ہے ناں؟

نالیاں اور نکڑ کے درمیاں ایک آبشار نے شہاب صاحب کو قریب کھینچ لیا۔ بقیہ دور سے اس نظارے سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ہمارے ساتھ کشمیر پر لکھی گئی نظموں کے مجموعے “اے دنیا کے منصفو!” کے خالق جاوید احمد بھی تھے۔ پچھلی صدی کی اسی کی دھائی میں لکھے گئے ان کے نغمے کا شور ڈنہ ناگیشور کے چشموں، جھرنوں اور آبشاروں میں اب بھی سنائی دے رہا ہے۔

اے دنیا کے منصفو!
سلامتی کے ضامنو!
کشمیرکی جلتی وادی میں بہتے ہوئے خون کا شور سنو

میرا ارادہ ناگیشور ٹاپ پر جانے کا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ یہ کمی ہمارے میزبانوں، جناب نعمان فاروق اور ڈاکٹر ماجد محمود نے اپنی شاعرانہ منظر کشی سے پوری کر دی۔ اپنے کلام کو سمیٹتے ہوئے ڈاکٹر ماجد نے کہا کہ ناگیشور نے اپنا سر بلاوجہ نہیں اٹھایا ہوا۔ اس کے ایک طرف پلندری میں بابائے پونچھ اور دوسری طرف منگ میں سردار شمس خان، سردارعلی خان اور سردار ملی خان کی یادگاریں ہیں۔ دھرتی کے ان سپوتوں نے ناگیشور کے سر کو جھکنے نہیں دیا۔

واپسی کا سفر زیادہ نشاط افزا تھا۔ پہاڑیوں پر بنے نئے سرکاری دفاتر سے منظر زیادہ خوبصورت ہو گیا ہے۔ ڈسٹرکٹ کورٹس کے پہلو میں پلندری کے گلزار ادب میں پنیری لگانے والے معروف اقبال شناس عبدالعلیم صدیقی کے مرقد پر فاتحہ پڑھی۔ ”کوئی” میں دور سے ان کا گھر دیکھا۔ چیڑ کی گھنی شاخوں سے چھناتی ہواؤں کا سنگیت سنا اور سانپ کی طرح بل کھاتی بے ڈھب سڑک سے ہم پلندری پہنچ گئے۔

پلندری ڈھلوانوں پر آباد ہے۔ یہاں یہ کہنا بے محل نہ ہو گا کہ پلندری رے پلندری تیری کون سی کل سیدھی۔ شاید اسی بے ترتیبی اور اتار چڑھاؤ کے باعث یہ پلندری کہلاتی ہے۔ یہاں جس چیز سے آپ کو ہر وقت سامنا کرنا پڑتا ہے وہ سیڑھیاں ہیں۔ راستوں پر چلنے اور عمارتوں میں داخل ہونے کے لیے سیڑھیاں چڑھنا ناگزیر ہے۔

پلندری کے آڑھے ترچھے بازاروں اور پلازوں کو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر اشیاء یہاں راولپنڈی سے آتی ہیں۔ پلندری میں کشمیری شالیں اسی طرح ملتی ہیں جس طرح پاکستان کے کسی بھی شہر میں مل سکتی ہیں۔ کشمیری ہینڈی کرافٹس جس طرح راولاکوٹ، مظفر آباد وغیرہ میں نظر آتی ہیں ان کی کوئی جھلک پلندری میں دکھائی نہیں دی۔

پلندری میں پٹھانوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ شاید اس لیے کہ پٹھانوں کو سنگلاخ زمینیں راس آتی ہیں۔ یہاں سدھنوں کی صورت میں یوسف زئیوں کی خوشبو بکھری ہوئی ہے۔ سنتالیس میں کشمیر آزاد کرانے کے لیے پشتون قبائل کا اہم پڑاؤ پلندری تھا۔

قبائلیوں نے سب سے پہلے گلاب سنگھ کے بنگلے پر قبضہ کیا۔ پلندری شہر کے بلند ترین مقام پر بنائی گئی یہ عمارت ثقافتی حوالے سے اہم ہے۔ ڈوگروں کی یہ یادگار گزشتہ ستر سال سے ڈی سیوں کے قبضے میں ہے۔ گذشتہ ستر سال میں سیاحت کے فروغ کے لیے پلندری میں کچھ نہیں کیا گیا۔

مہاراجہ گلاب سنگھ اوروں کے لیے دیوتا سہی جس نے کشمیر کی حدود کو ہندوستان سے لے کر چین، روس اور افغانستان تک پھیلا دیا۔ لیکن پہاڑی پونچھیوں کے لیے وہ ظلم، جبر اور نفرت کی علامت ہے۔ جب تک جابرانہ سوچ پر شعوری یلغار نہیں ہوتی کشمیر جنت نظیر نہیں ہو سکتا۔