تحریر : میر افسر امان
طالبان، جو پاکستان میں بازاروں، مساجد، امام بارگاہوں، مزاروں، لڑکیوں کے اسکولوں، فوجی چھاونیوں، پولیس ہیڈ کوٹروں ، دفاعی اداروں، ایئر پورٹوں اورکر کٹ کی ٹیم پر وہشیانہ حملے کرتے رہے ہیں جو اخبارات میںعرف عام میں طالبان کہلاتے ہیںان کو ہم اپنے کالموں میں ظالمان لکھتے رہے ہیں۔مگر اب جب ان ظالمان نے ہمارے پھول جیسے بچوں ، جنہیں دنیا کے مہذب معاشروں میں بھی پھول ہی کہا جاتا ہے انہیں قبروں میں ڈال دیا یہ ظالمان دوزخی ہیں۔انہیں اس جرم میں ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے۔ ان کی بخشش کا کوئی بھی امکان نہیں ہے۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ١٣٤بچوں ، اسٹاف اور سیکورٹی والوں کو بے گناہ شہید کرنے والوں کا انجام عبرت ناک ہو گا۔ دنیا میں آیندہ لکھے جانے والی تاریخ انسانیت میں مہذب معاشرے ان سے نفرت ہی کرتے رہیں گے۔یہ کیسے مسلمان ہیں؟ مسلمانوں کو جنگ میں بچوں عورتوں، حتہ کہ جنگ میں شریک نہ ہونے والوں کو بھی قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ مسلمانوں میں تو جنگ کے بھی اصول ہیں کیا ! کیا تمھارا بھی کوئی اصول ہے؟ دوزخیو، کیا ان معصوم پھولوں نے تم سے جنگ کی تھی؟ تم پر بم پھینکے تھے؟ تمہیں قتل کیا تھا؟۔
تمہارہ راستہ روکا تھا؟ نہیں نہیں ان پھولوں نے یہ سب کچھ نہیں کیا تھا۔ پھر کیوں تم نے ان پھولوں کو بے دردی سے نام اور ان کے باپوکا نام پوچھ پوچھ کر شہید کیا۔ کیا ان پھولوں کو شہید کرتے وقت تم نے دل میں اللہ اور آخرت کا ذرا سا بھی خوف محسوس نہیں کیا؟ ان پھول جیسے بچوںکے والدین پر اس وقت کیا گزری تھی اور اب کیا گزر رہی ہے یہ اللہ ہی جانتا ہے۔پوری امت مسلمہ اور مہذب دنیا ان کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ہر طرف سے اس فعل پر لعنت بھیجی جا رہی ہے۔ مذہبی طبقے بار بار کہتے رہے ہیں کہ بندوق کے زور پر اسلام نہیں آسکتا ملک کے آئین کو نہ مان کر کوئی بھی شخص اس ملک کا غدار کہلاتا ہے۔ مسلمانوں کی تمام فقہ نے اسلامی حکومت کے خلاف مسلح جد و جہد کی نفی کی ہے۔ جب آئین میں جمہوری طور پر تبدیلی کے لیے دفعات ہوں تو کوئی شہری آئینی حکومت کے خلاف ہتھیا ر نہیں اُٹھا سکتا۔ اس کا ایک ہی آئینی طریقہ ہے کہ عوام کے پاس جا کر اپنا پروگرام پیش کیا جائے اور عوام اگر آپ کے پروگرام سے اتفاق کرتے ہیں اور آپ پارلرلیمنٹ کے اندر غالب اکثریت سے پہنچ سکتے ہیں تو اس طرح کوئی بھی نظام قائم کیا جاسکتا ہے۔ مگر تم نے یہ پرامن راستہ اختیا نہیں کیا اور بندو ق اُٹھا لی۔ تمھاری اس روش کے باوجود تمھیں ملک کے ناراض شہری جانتے ہوئے ملک میں امن کے بہی خواہوں نے حکومت کو مذاکرات کا مشورہ دیا ۔ملک کے خیراندیشوں، کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں نے بھی اس کی تائید کی اور کہا کہ بندوق کے زور پر نہ اسلام قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی ملک کی آبادیوں پر بمباریوں سے امن قائم ہو سکتا ہے۔
اس کے لیے بین الاقوامی طور پر تصدیق شدہ طریقہ مذاکرات ہی ہے۔ ملک کی پارلیمنٹ، سینیٹ، کمیٹیوں اور آل پارٹی کانفرنس نے بھی مذاکرات کے لیے تاہید کی۔ مقتدر حلقوں نے اس مفروضے کو مانتے ہوئے تم سے مذاکرات کیے۔ حکومت نے بھی مذاکرات کیے ۔ پھربیرونی قوتوں نے اپنا کھیل کھیلا۔ مذا کرات کامیاب نہ ہو سکے۔ تمھاری طرف سے بھی کوئی خاص پیش رفت نہ دیکھی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ بقول وزیر داخلہ امریکہ( جو ہمارا ازلی دشمن ہے) نے بھی ڈرون حملہ کر کے مذاکرات کو سابوتاژ کیا۔ تم نے بہادر فوجیوں کے گلے کاٹے کیا کسی مہذب دنیا میں کبھی ایسا ہوا ہے؟ لا تعداد شہریوں کو اغوا کیا، جس میں ملک کے سابق وزیر اعظم کا بیٹا اور ملک کی پشاوریونیورسٹی کا وائس چانسلر شامل ہے۔ وائس چانسلر کو ضرب عضب کے ذریعے آزاد کر لیا گیا ۔ وزیراعظم کا بیٹا اب تک تمہاری قید میں ہے اس کے خاندان اور ماں باپ پرکیا گزر رہی ہے ؟ دوزخیوں کی اس ظلمانہ کاروائی کے بعد، بات اب انتہا سے بھی اوپرچلی گئی ہے۔ اس موقعے پر تحریک انصاف کے عمران خان صاحب نے بھی اپنے طویل احتجاجی دھرنے اور جلسوں کا پروگرام کینسل کیا ۔دوسری سیاسی اور مذہبی پارٹیوں نے بھی اپنے اپنے پروگراموں کو ایک طرف رکھ دیا ہے ۔یہ بہت ہی خوش آیند بات ہے۔ملک کی تمام سیاسی اور دینی پار ٹیوں نے پشاور میں میٹنگ کی۔ فوج کے سربراہ نے اس سفاک واقعے کی تفصیل بیان کی۔ تمام نے وزیر اعظم جناب نواز شریف اور فوج کو اس معاملے پر سخت قدم اُٹھانے کی حمایت کی۔ فوج کے سربراہ اور آئی ایس آئی کے چیف نے پڑوسی ملک افغانستان جا کر ان کے صدر اور فوج کے سربراہ کو اس حملے کی تفصیلات بتائیں کہ کس طرح ان کے ملک سے پاکستان میں حملہ کیا گیا اور اس حملے کے ذمہ دار افغانستان میں موجود ہیں۔ ٹی ٹی پی کے امیر مولوی فضل اللہ کو پاکستان کے حوالے کرنے کا کہا۔ فوجیوں پر
اور مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنے والوں کی اپیلیں فوج کے سربراہ نے مسترد کر دیںہیں جن کو عدالتوں نے پھانسی کی سزاہ سنائی تھی ان کی قرار واقعی سزاہ پر عمل کیا گیا ہے۔ ملک بھر سے دہشت گردوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے ۔ فوجی آپریشن کو شمالی وزیرستان سے پورے ملک میں پھیلا دیا گیا ہے۔ گھر گھر تلاشیاں لی جا رہی ہیں۔جگہ جگہ سے دہشت گرد بمعہ بارودی مواد گرفتار ہو رہے ہیں۔ سیاسی سطح پر پارلیمنٹ میں موجود پارٹیوں کے نمایندوں کو وزیر اعظم نواز شریف نے جمع کیا جس میں فوجی قیادت بھی شریک ہوئی اس اجتماع کو قومی اجتماع کہا جائے تو بجا ہو گا۔ گیارہ گھنٹے کے طویل اجلاس کے بعد ایکشن پلان طے کیا گیا ۔ جس میں دوسرے ضروری اقدامات کے علاوہ دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کا بھی کہا گیا ہے۔ اس اجلاس میں آرمی چیف نے کہا، دہشتگردوں کے خلاف بڑے فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور خیبر ون کامیابی سے جاری ہے۔سرحدوں کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے۔ ملک بھر میں دشمن کا پیچھا کریں گے۔ انتہا پسندی کو انجام تک پہنچانے کے لیے نیکٹاکی بحالی سمیت سخت اقدامات نا گزیر ہیں۔آرمی چیف نے اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی اتفاق رائے پر فوری عمل ہو گا۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے متعلقہ حکام کو خصوصی ہنگامی اقدامات کی ہدایات بھی کر دی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ قوم کے اعتماد پر پورا اتریں گے۔ سیاسی قیادت کا جذبہ اور عزم غیر متزلزل ہے۔
نواز شریف صاحب نے کہا کہ دہشتگردوں کے مکمل خاتمے کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ قوم اور فوج ایک ساتھ ہے۔ پلان پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے صوبوں کا خود دورہ کروں گا۔ گو کے فوجی عدالتوں پر سب سیاستدانوں کو تحفظات تھے اوروہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ فوجی عدالتوں کا غلط استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن پھر بھی اسے صرف دہشت گردوں کے مقدمات تک محدودرکھ کر بادلِ ناخواستہ سب پارٹیوں نے ما ن لیا ہے۔ وزیر داخلہ کی کمانڈ میں ایکشن کمیٹی بنا دی گئی ہے ۔ ایکشن کمیٹی نے بھی فوجی عدالتیں بنانے کی سفارش کر دی۔ ان شا ء اللہ یہ سب کام آئین کے دارے میں ہونگے ۔ ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے کاٹ دیا جائے گا۔ طے شدہ ایکشن پلان کے تحت وزیر اعظم نے کمیٹیا ںقائم کر دی ہیں۔ کمیٹیوں کوکرنے کے کام بھی بتا دیے گئے ہیں۔ وزیر اعظم خود ان کمیٹیوں کے کام کی نگرانی کریں گے اورسفارشات پر عمل درآمد بھی یقینی بنائیں گے۔
جہاں تک تحریک انصاف کے مطالبات کا تعلق ہے وہ بھی حکومت کو خوش اسلوبی سے طے کرنے چاہیں تاکہ یک سو ہو کر ملک سے دہشت گردی کو ختم کیا جا سکے۔ یہ ملک ہے تو سیاست اور سیاسی مطالبات بھی ہیں ۔ہمارے دشمن پاکستان کو توڑنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اسی لیے سیاسی قیادت اور فوج سب کو یکجا رہنا چاہیے جیسے اس وقت ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سیکولر عناصراور غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے والی لسانی تنظیم کے سربراہ فوج کو ٹیک اُور کا کہہ رہے ہیں۔ ایک فرد کے نامناسب بیان پر لال مسجد کو ڈھانے کی بات کر رہے ہیں۔ اسلام بیزارسول سوسائٹی اور این جی اُوز کے لوگ اسلام پر اپنا غصہ نکال رہے ہیں جس سے ملک کے آئین اور اسلامی تشخص کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اس وقت ان عناصر پر حکومت اور عوام کی طرف سے کڑی نظر رکھنے کا وقت ہے۔ اللہ ہمارے ملک کے حالات درست فرمادے۔ اللہ ہمارے ملک کا محافظ ہو آمین۔
تحریر : میر افسر امان
mirafsaraman@gmail.com