اسلام آباد(ایس ایم حسنین)افغانستان کی خود مختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں، پاکستان، افغانستان کا سرپرست نہیں دوست بننا چاہتا ہے، یہ تبدیلی کا نمونہ ہے اور اگر ہمیں امن کے ساتھ رہ کر مشترکہ مستقبل تعمیر کرنا ہے تو یہ اس بات کی پہچان کا نیا احساس ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹیڈیز میں افغان مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کے ہمراہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا افغان عوام کے لیے واضح پیغام ہے کہ ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں اور نہ ہم آپ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف افغان ہی کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بین الافغان مذاکرات اور بات چیت کے نتیجے میں جو بھی اتفاق رائے ہوگا ہم پاکستانی عوام افغانستان کے عوام کی خواہش کو قبول کریں گے اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔ سابق صدر ایوب خان کی کتاب کے نام کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے افغان رہنما کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے سرپرست نہیں دوست بننا چاہتے ہیں، یہ تبدیلی کا نمونہ ہے اور اگر ہمیں امن کے ساتھ رہ کر مشترکہ مستقبل تعمیر کرنا ہے تو یہ اس بات کی پہچان کا نیا احساس ہے۔
انہوں نے کہا کہ عبداللہ عبداللہ، زمینی حقائق، کمزوریوں، رکاوٹوں اور خدشات کو پوری طرح سمجھتے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں مفاہمتی کونسل کے چیئرمین کی حیثیت ان کے کیرئر کا سب سے مشکل کام ہے جس پر میں ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں کیوں کہ ان کی کامیابی میں میری کامیابی ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم براہ راست بات کریں، خوش اسلوبی سے دوستانہ انداز میں خلوص کے ساتھ تبادلہ خیال اور رابطے کریں جو ہم نے گزشتہ روز کیا جب وہ دفتر خارجہ آئے تھے، ہم نے انتہائی اہم ملاقات کی اور متعدد چیزوں پر بات کی لیکن خاص توجہ امن عمل کو آگے بڑھانے پر تھی جو ایک مشکل کام ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اس دورے کا وقت انتہائی اہم ہے، کیوں کہ یہ متعدد تاریخی مواقع کے بعد ہورہا ہے، امریکا اور طالبان کے مابین 29 فروری کو دوحہ میں امن معاہدہ ہوا جو تاریخی تھا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ وزیر خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد جب امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو اسلام آباد کے دورے پر آئے تو ملاقات میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ واشنگٹن کا راستہ کابل سے ہو کر جاتا ہے، لیکن ہم تو کابل سے بھی آگے کا سفر کرچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا میں اس بات کو سمجھتا ہوں کہ کابل پاکستان کے لیے کتنا اہم ہے، یہ معاہدہ اور یہ حقیقت کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا آسان نہیں تھا لیکن یہ ہوا، علاقائی سمجھوتہ آسان نہیں تھا لیکن ہوا، 9 اگست کو لویہ جرگہ میں کیے گئے فیصلے آسان نہیں تھے لیکن ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ 12 ستمبر کو بین الافغان مذاکرات کا انعقاد آگے کی جانب ایک قدم ہے، افغانستان-پاکستان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سولیڈیریٹی (اے پی اے پی پی ایس) کا دوسرا دور 31 اگست کو کابل میں ہوا جو میری نظر میں درست سمت میں ایک قدم تھا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 25 ستمبر کو وزیراعظم عمران خان کی افغان صدر اشرف غنی سے ٹیلی فونک گفتگو مثبت تھی جس میں انہوں نے دعوت دی جو وزیراعظم نے قبول کرلی اور انشااللہ افغانستان کا دورہ کریں گے اور افغان مفاہمتی کونسل کے چیئرمین کا یہ 3 روزہ دورہ انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ آج ہم جہاں پہنچے ہیں، یہ راتوں رات نہیں ہوگیا بلکہ یہ تبدیلی وقت کے ساتھ ساتھ آئی ہے، ہم نے اپنے تجربات، اپنی غلطیوں سے سیکھا اور یہ سمجھنا کہ ان پر کس طرح قابو پایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ آج ایک نیا بین الاقوامی ماحول ہے جو سیاسی تصفیے کا حامی ہے، آج امن عمل کو علاقائی حمایت حاصل ہے اور یہ بغیر علاقائی حمایت کے آگے بڑھ بھی نہیں سکتا تھا، آج اس بات کا بڑا واضح احساس پاکستان اور افغانستان دونوں میں موجود ہے کہ اگر ہم اپنے لیے ایک خوشحال مستقبل چاہتے ہیں تو ہمیں امن کی ضرورت ہے اور یہ احساس ہم پر غالب ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ احساس کئی سالوں کے ساتھ ساتھ اجاگر ہوا ہے کہ افغان تنازع کا کوئی عسکری حل نہیں ہے، یہ آواز اکثر نہیں سنی جاتی جاتی تھی جسے بالآخر سن لیا گیا۔آج اس بات کا اعتراف موجود ہے کہ ایک مذاکراتی سیاسی تصفیہ ہی آگے بڑھنے کا شاید واحد اور بہترین راستہ ہے، چنانچہ یہ ایک منفرد اور تاریخی موقع ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے، اس سے افغان قیادت کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج تشدد میں کمی جنگ بندی کی جانب بڑھ رہی ہے جو امن کے لیے انتہائی ضروری شرط ہے، آج میں یہ اعتماد کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ افغانوں کی بڑی تعداد امن چاہتی ہے، لیکن میں اوری عبد اللہ عبداللہ دونوں اس بات کو سمجھتے ہیں کہ بگار پیدا کرنے والے عناصر ہمیشہ موجود رہتے ہیں جن پر ہمیں نظر رکھنے کی ضرورت ہے، ہمیں چوکنا رہنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ بہت سے عناصر نے جنگی معیشت سے فائدہ اٹھایا ہے، جن کے مختلف مفادات ہوسکتے ہیں لیکن ایک بہت بڑی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ یہ آگے بڑھنے کا درست طریقہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ صرف اور صرف افغان ہی افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرسکتے ہیں اور ایک پائیدار امن صرف افغانستان کے اندر سے ہی آسکتا ہے اسے افغانستان پر تھوپا نہیں جاسکتا، آپ کو خاص طریقے سے احساس کرنا ہوگا اس کے بعد ہی آپ اپنے سامنے مشکلات سے نبرد آزما ہوسکتے ہیں۔ تمام فریقین کو ایک ساتھ مل کر پر امن خوشحال اور مستحکم افغانستان کے لیے کام کرنا ہوگا جو پاکستان کی خواہش ہے۔ اگر ہمیں تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کو عملی شکل میں دیکھنا ہے تو اس کے لیے امن شرط ہے، اگر ہمیں خطے میں باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے، اگر افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے واپس بھیجنا ہے تو امن ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور چیز بھی ضروری ہے کہ ماضی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھا جائے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ راستہ آسان نہیں یہ ہمیں پلیٹ میں رکھا نہیں ملے گا بلکہ اس کے لیے کام کرنا ہوگا اور یہ سارا کھیل صبر کا ہے آپ کو صبر رکھنا ہوگا۔
پاکستان نے افغان امن عمل میں اہم کردار ادا کیا، افغان مفاہمتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کے بہترین امکانات موجود ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ کابل ان کی باعزت واپسی کے پاکستانی نقطہ نظر کی تائید کرتا ہے۔افغانستان کی مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں سہولت کاری میں اہم کردار ادا کیا ہے، افغانستان کبھی بھی کسی بھی دہشت گرد تنظیم کو اپنی سرزمین کسی دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں نے مختلف دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے تخریبی سرگرمیوں کا سامنا کرکے بھاری قیمت ادا کی ہے، ہمیں ایسے عناصر کے خلاف تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ ان کا ملک کسی کو بھی اپنی سرزمین دوسرے ملک کے خلاف تخریبی سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ افغان اعلیٰ سطحی مفاہمتی کونسل کے چیئرمین نے کہا کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا آغاز ایک اہم موقع ہے اور طویل جنگ کے خاتمے کی روشن امید پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی مذاکراتی ٹیم کو صبر کرنے اور سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار رہنے کی تلقین کی ہے۔ عبد اللہ عبد اللہ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو مشترکہ خطرات اور چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں دہشت گردی ، انتہا پسندی ، عدم رواداری اور حالیہ کوویڈ 19 کی وبا شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین سیکیورٹی، سیاسی اور معاشی شعبوں میں باہمی تعاون کی بڑی صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ دورہ پاکستان کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان نئے دور کا آغاز کرنا ہے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان برادرانہ تعلقات ہیں، افغانستان ، پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات کا خواہاں ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ افغانستان میں امن سے پاکستان میں امن ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک میں آزادانہ تجارت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ انہوں نے پرامن اور خوشحال بقائے باہمی کے لئے باہمی رابطوں کی ضرورت پر زور دیا۔ عبداللہ عبد اللہ نے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے پر پاکستان کا شکریہ بھی ادا کیا۔