مسعود اشعر
یہ دھند نہیں ہے اندھا دھند ہے۔ ایک زہریلے غبار نے دہلی سے لے کر ان کے اور ہمارے پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ آنکھوں میں مرچیں لگتی ہیں اور گلے میں پھانس اٹکتی ہے۔ بیماروں سے اسپتال بھرے جا رہے ہیں۔ ماحولیات کے ماہر اس پر طرح طرح کے تبصرے کر رہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ان کے پنجاب اور ہمارے پنجاب کے کھیت کھلیانوں میں کٹی ہوئی فصلوں کے بھوسے کو جو آگ لگائی جاتی ہے یہ اس کا نتیجہ ہے۔ اور کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ جو شہروں کے اردگرد لوہے کی فیکٹریاں ہیں ان کا دھواں اور سڑکوں پر چلنے والی پرانی کاروں اور بسوں سے پھوٹنے والا دھواں اکٹھا ہو کر فضا میں معلق ہو گیا ہے۔ اس دھویں میں زہریلے ذرات بھی شامل ہو گئے ہیں۔ فضا دھواں دھواں ہو گئی ہے مگر یہ دھواں اپنی شکل میں ہمارا جانا پہچانا دھواں نہیں ہے بلکہ اس کی شکل کچھ اور ہی ہے۔ اسی لئے ماہرین نے اس کا نام کہر، دھند یا کے بجا ئے رکھ دیا ہے یعنی اور کا مرکب۔ یہ لفظ ہم نے اختراع نہیں کیا ہے بلکہ انگریزوں نے بنایا ہے اور اس وقت بنایا ہے جب لندن کی روایتی دھند میں زہریلا مواد شامل ہو گیا تھا۔ ثابت ہوا کہ بڑی زبانیں وہی ہوتی ہیں جو نئے حالات کے ساتھ نئے الفاظ، نئی نئی ترکیبیں اور نئی نئی اصطلاحات تخلیق کرتی رہتی ہیں۔ دور کیوں جایئے، پچھلے دنوں برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالنے کی مہم چلی تو اس کا نام رکھا گیایعنی برطانیہ کا خروج یا اخراج۔ وقت کے ساتھ اس طرح کے اور بھی نئے نئے لفظ بنتے رہتے ہیں۔ ہم غریب دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے والے ہیں۔ وہ جو لفظ ایجاد کرتے ہیں ہم بھی وہی استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
لیکن ہماری نئی شاعرہ عارفہ شہزاد نے بتایا ہے کہ کسی صاحب نے اردو پر رحم کھا کر اسموگ کے لئے ایک لفظ، یا بقول عارفہ ایک اصطلاح اختراع کی ہے۔ یہ لفظ کیا ہے؟ یہ ہم اپ کو بعد میں بتائیں گے۔ اس وقت تو ہمیں برسوں اور صدیوں پرانے لندن کی دھند یاد آ گئی ہے۔ کیسے کیسے رومان وابستہ نہیں کئے جاتے تھے اس دھند کے ساتھ۔ ذرا یاد کیجئے، کتنے ناول، کتنے افسانے اور کتنے ڈرامے اور کتنی فلمیں نہیں بنائی گئی ہیں لندن کی اس دھند کے حوالے سے۔ شرلاک ہومز کے کارناموں کو ہی یاد کر لیجئے، یا پھر ہچکاک جیسے ڈائریکٹروں کی پراسرار اور ہیبت ناک فلمیں یا پھر کرائم تھرلر۔ رات کا وقت ہے، چاروں طرف اندھیرا چھایا ہوا ہے، اس اندھیرے کو گہری دھند نے اور بھی ہیبت ناک بنا دیا ہے، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔ پارک میں کوئی آدمی چل رہا ہے مگر اسے نہیں معلوم کہ وہ کدھر جا رہا ہے۔ اچانک اسے ایک آواز سنائی دیتی ہے۔ وہ آواز اتنی قریب ہے کہ وہ ڈر جاتا ہے۔ اور پھر جو کچھ ہوتا ہے وہ ایک ہیبت ناک کہانی بن جا تی ہے۔ لیکن یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہاں بجلی کی چکا چوند کر دینے والی روشنیاں نہیں آئی تھیں۔ ادھر یہ روشنی آئی اور ادھر یہ رومانوی دھند ختم ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی اس دھند میں لپٹی ہوئی کہانیاں، ڈرامے اور فلمیں بھی ختم ہو گئیں۔ اب وہاں نمودار ہوئی وہ دھند جس میں کہر، گاڑیوں اور کارخانوں کا زہریلا دھواں شامل تھا۔ اب اسے فوگ یا کہر، یا دھند تو نہیں کہا جا سکتا تھا اس لئے ایک ایسا نام اختراع کیا گیا جو اس پورے ملغوبے کو بیان کر سکے۔ چنانچہ نیا لفظ ’’اسموگ‘‘ سامنے آ گیا۔ ہم غریب، دوسروں کا جھو ٹا کھانے والے کیا کرتے ان کا بنایا ہوا لفظ ہم نے بھی اختیار کر لیا۔
لیکن ہم میں کچھ ایسے دل جلے بھی ہیں جو زمانے اور حالات کے مطابق نئے نئے الفاظ اور نئی نئی ترکیبیں اور اصطلاحات بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جیسے ’’اسموگ‘‘ کے لئے وہ لفظ جو عارفہ شہزاد نے اپنی نظم میں استعمال کیا ہے۔ لیجئے آپ وہ نظم ہی پڑھ لیجئے۔ عنوان ہے’’دھندھواں‘‘
خاک زدہ دھوئیں کی کھائی
سانس کے اندر جمتی کائی
آنکھ میں چبھتی سوئیاں ہیں
دھندھواں کے کتنے پائوں
کونسی نگری چلتا جائے
سب موسم حیران کھڑے ہیں
کونسی رت کا گیت سنائیں
دھندھواں نے نگلے بادل
کات کے سورج چاند کا چرخا
ہر ہر سانس اب کیسے پرکھا
وہ کہتی ہیں کہ اسموگ کا اردو متبادل ادریس با بر نے بنایا ہے۔ ’’دھند ھواں‘‘۔بات تو دل کو لگتی ہے۔اس میں دھند بھی آ گئی اوردھواں بھی آ گیا۔لیکن کیا یہ اصطلاح رائج بھی ہو جا ئے گی ؟اول تو یہ کہ اس کا تلفظ ہی خاصہ ٹیڑھا ہے۔ اور پھر جب ہمارے پاس، انگریزی کا ہی سہی، یک آسان لفظ موجود ہے تو ہم نیا لفظ بنانے کا تکلف کیوں کریں۔ مگر چلیے، ادریس بابر نے نیا لفظ بنایا ہے تو ہمیں اس کی تعریف ضرور کرنا چاہئے۔ اسی لفظ نے عارفہ شہزاد کو نظم لکھنے پر اکسایا ہے۔ بات کچھ بن ہی گئی ہے۔ میں نے کہا نا کہ عارفہ شہزاد نئی شاعرہ ہیں اور دوسری کئی فیمنسٹ شاعرات کی طرح، انہیں بھی اپنے پڑھنے والوں کو چونکانے کا شوق ہے۔ اپنے پہلے شعری مجموعے کا نام بھی انہوں نے چونکا دینے والا رکھا ہے ’’عورت ہوں نا‘‘۔ حالانکہ اگر وہ یہ نام نہ رکھتیں تب بھی ان کی شاعری پسند کی جاتی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ چونکانے اور جھٹکا دینے کی شوقین شاعرات یاسمین حمید سے کیوں نہیں سیکھتیں۔ اصل شاعری ایسے ہوتی ہے۔ خیر، ذکر ہو رہا تھا اسموگ کے اردو متبادل ’’دھندھواں‘‘ کا۔ اگر اخبار اور ٹی وی چینل اسے استعمال کرنے لگیں تو یہ چل بھی سکتا ہے مگر وہ ایسا کیوں کریں گے۔ انہیں تو بنا بنایا ایک آسان لفظ مل گیا ہے ’’اسموگ‘‘۔