لاہور(ویب ڈیسک) سعودی عرب آئل فیلڈپر کئے گئے ڈرون حملے نے خلیج فارس کی صورت حال انتہائی نازک اور تشویش ناک کردی ہے، آئل فیلڈ پر حملے کے فوری بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کا الزام ایران پر عائد کردیا تھا جبکہ ایران نے اس سے انکار کیا تھا بعد ازاں سعودی عرب نے بھینامور کالم نگار جمیل اطہر قاضی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ ایران پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ حملے میں ایرانی میزائل استعمال کیا گیا ہے جبکہ امریکہ نے ایک قدم مزید آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ ڈرون ایرانی علاقے سے اڑا تھا، اسکے جواب میں گو ایران ابھی تک مدافعانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے اور ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن اگر سعودی عرب یا امریکا کی جانب سے حملہ کیا گیا تو اپنے دفاع میں ایک پل دیر نہیں لگائیں گے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ غیر ملکی حملے کی صورت میں اپنا دفاع ہر ملک کا بنیادی حق ہے، جبکہ اگر سعودی آئل فیلڈ پر حملے کی نوعیت پر غور کریں تو سعودی عرب یمن میں حوثی قبائل کیخلاف جنگ میں مصروف ہے اور حوثی قبائل سعودی عرب سے مقابلہ کیلئے روس اور ایران سے ہتھیار لے رہے ہیں جن میں راکٹ اور میزائل بھی شامل ہیں اور اب ڈرون بھی شامل ہوگئے ہیں، وہ سعودی عرب کے خلاف پہلے بھی کئی بار حملوں کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن سعودی عرب نے ایسی ہر کوشش کو ناکام بنایا ہے، جبکہ اس بار یہ حملہ کامیاب ہوگیا ہے، ان حالات میں اس حقیقت کو کُلی طور پر رد نہیں کیا جاسکتا کہ حالیہ حملے میں یمن کے حوثی قبائل کا ہی ہاتھ ہو کیونکہ اگر یہ سوچا جائے کہ اس حملے میں ایران ملوث ہے تو سوال یہ ہے کہ اس حملے سے ایران کیا مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے؟ یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی ملک یوں ہی کوئی کارروائی نہیں کرتا اور خاص طور پر جب کسی دوسرے ملک میں ایسی جارحانہ کارروائی کی گئی ہو تو اس میں بہت سے مفادات کار فرما ہوتے ہیں جبکہ سعودی آئل فیلڈ پر حملے سے ایران کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی مستقبل میں کسی قسم کے مفادات کا حصول ممکن ہے۔ ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایران نے ایسی کارروائی کیوں کی جس میں نہ تو اس کا کوئی اب مفاد ہے نہ ہی مستقبل میں کسی قسم کا مفاد ممکن نظر آتا ہے بلکہ الٹا اس میں ایران کا نقصان ہی ہے جیسے اب امریکہ نے ایران کیخلاف مزید پابندیاں عائد کردی ہیں۔ اب اگر امریکہ کی جانب سے ایران کیخلاف روئیے پر غور کریں تو امریکہ ہر معاملے میں ایران کو موردِ الزام ٹھہرانا اپنا فرض اوّلین سمجھتا ہے، خواہ اس میں ایران ملوث ہو یا نہ ہو اور اسکی بھی ایک بنیادی اور ٹھوس وجہ ہے کہ خطے میں پاکستان کے علاوہ صرف ایران اور ترکی ہی ایسے ملک ہیں جو اسرائیل سے ٹکر لے سکتے ہیں، ترکی تو فی الحال اسرائیل کی جانب متوجہ نہیں ہے بلکہ اندرونی طور پر خود کو مستحکم کرنے میں مصروف ہے جبکہ پاکستان سے فی الحال ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ یہ اسرائیل کو اپنا ہدف بنالے البتہ ایران متعدد بار اسرائیل کا وجود ختم کرنے کی دھمکی دے چکا ہے اور امریکہ اسرائیل کا محافظ بنا ہوا ہے لہذا ان حالات میں امریکہ کی ایران سے دشمنی سمجھ میں آتی ہے یہی وجہ ہے کہ معاملہ کچھ بھی ہو امریکہ فوری طور پر ایران کو موردِ الزام ٹھہرا دیتا ہے یہی حال اب سعودی آئل فیلڈ پر حملے کی صورت میں ہوا ہے کہ ابھی یہ پتہ نہیں چلاکہ یہ حملہ کس کی کارستانی ہے لیکن امریکہ نے حملہ ہوتے ہی ایران کو موردِ الزام ٹھہرا دیا تھا لیکن پھر وہی بات کہ اگر ایران کو حملہ آور مان لیا جائے تو پھر پہلا اور بنیادی سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ اس حملے سے ایران نے کیا مفادات حاصل کئے؟ اس نظر سے دیکھیں تو الٹا ایران کو نقصان ہی ہوا ہے کہ امریکہ نے اس پر مزید پابندیاں عائد کردی ہے اور موجودہ صورتحال میںنہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان کو سعودی عرب کی حمایت کرنا پڑیگی اور اسکی بنیادی وجہ کشمیر کا مسئلہ ہے کہ اس وقت بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو گوانتانامو بے کے بعد دوسری سب سے بڑی جیل میں تبدیل کیا ہوا ہے اور نہتے و مظلوم کشمیریوں کو غیر انسانی وحشت و بربریت کا شکار بنا رہا ہے، اس وقت بھارتی فوج کے درندے مقبوضہ کشمیر میں وہ تمام کارروائیاں کررہے ہیں جو غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہیں، ان حالات میں ہمیں ہر حال میں او آئی سی اور اسلامی دنیا کی حمایت درکار ہے جو سعودی عرب کی حمایت کے ساتھ ہی مشروط ہے اور سعودی عرب ویسے بھی ہماری بہت مدد کررہا ہے ہماری معیشت کو سہارا دیتے ہوئے سعودی عرب نے نہ صرف ہمیں مالی امداد دی بلکہ تین سال کیلئے تیل بھی ادھار دینا شروع کردیا، جبکہ مقابلتاً اگر ایرانی روئیے کی جانب دیکھیں تو ماضی میں ضرور ایران نے مشکل اوقات میں اور خاص طور بھارت کے جنگ کی صورت میں ہماری بھرپور مدد کی لیکن فی الوقت ایران کا جھکائو بھارت کی جانب ہے، ایک تو بھارت چاہ بہار میں بندرگاہ تعمیر کررہا ہے گو یہ بندر گاہ بھی سی پیک کی اہمیت کو کم کرنے کیلئے تعمیر کی جارہی ہے لیکن پھر بھی بھارت اس سے وہ مقاصد حاصل نہیں کرسکتا جو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے بہرحال ایران کا جھکائو ہمارے دشمن ملک کی طرف ہے، ان حالات میں ہمارا جھکائو ہر حال میں سعودی عرب کی جانب ہوگا، ایسی صورت میں ایران تو تنہائی کا شکار ہوجائیگا یہ درست ہے کہ اس کو روس کی حمایت حاصل ہے اور اب چین بھی ایران کی حمایت کررہا ہے لیکن پھر بھی ایران کو پاکستانی کی حمایت درکار ہوگی، اس طرح ایران کی سرحدیں محفوظ ہوتی ہیں کہ پاکستان کے ساتھ ایرانی سرحد افغانستان، قازقستان، ترکی اور عراق کے ساتھ ملتی ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران کی دیگر تمام سرحدیں بھی محفوظ ہیں لیکن اگر پاکستان کے ساتھ حالات خراب ہوتے ہیں اور خاص طور پر سعودی عرب کے مقابلے میں تو ایران کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کیمطابق ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ایران کسی بھی عسکری تنازعہ میں نہیں الجھنا چاہتا تاہم اگر امریکا یا سعودی عرب کی جانب سے کوئی بھی حملہ کیا گیا تو یہ جنگ کی دعوت ہوگی اور ہم اپنے دفاع میں ایک پل بھی دیر نہیں کرینگے۔ایرانی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا اور اسکے اتحادیوں کے سعودی آئل فیلڈ پر حملے کے ایران پر الزامات امریکی صدر کو ایک جنگ کی طرف مائل کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے، لیکن ہم اس معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہیں اور جنگ نہیں چاہتے، تاہم یہ بھی باور کرانا چاہتے ہیں کہ جنگ کی صورت میں سعودی عرب کوآخری ’امریکی فوجی‘ کے زندہ ہونے تک لڑنا پڑیگا۔واضح رہے کہ 14 ستمبر کو سعودی شہر بقیق میں بڑی آئل فیلڈ اور آرام کو کمپنی کے پلانٹ پر ڈرون حملے ہوئے جس کے نتیجے میں بھاری مالی نقصان ہوا، امریکا اورسعودی عرب نے ان حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا جب کہ گزشتہ روز سعودی وزارت دفاع کی جانب سے ان حملوں میں ایران کے ملوث ہونے کے شواہد بھی پیش کئے گئے۔ان شواہد کے بارے میں ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ حوثی قبائل بھی ایرانی اسلحہ خریدتے ہیں اور وہ پہلے بھی سعودی عرب پر حملے کی ناکام کوششیں کرچکے ہیں لہذا اس بار بھی ان کی جانب سے حملے کے خیال کو رد نہیں کیا جاسکتا اور اگر ایران کو اس میں ملوث کریں تو پھر پہلا اور بنیادی سوال یہی ہے کہ ایران نے اس حملے سے کیا حاصل کیا، ان خطوط پر سوچیں تو ایران نے تو کھویا ہی کھویا ہے کہ اس پر پابندیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اور ساتھ ہی مسلم دنیا سے اس کے تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں کیونکہ اسلامی دنیا کے زیادہ تر ملک سعودی عرب کی حمایت میں ہیں، اس طرح اگر سعودی آئل فیلڈ پر حملے میں ایران ملوث ہے تو اس اقدام سے ایران کو فائدہ کچھ نہیں ہوا البتہ نقصان ہی نقصان ہوا ہے۔ ان حالات میں سعودی عرب کو بھی صبر سے کام لیتے ہوئے سوچنا چاہئے کہ اگر ایران کو اس حملے میں ملوث کیا جائے تو سب سے پہلا سوال یہی ہے کہ ایران نے اس حملے سے کیا حاصل کیا، اس ضمن میں ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ امریکہ سعودی عرب یا مسلمانوں کا دوست نہیں بلکہ وہ حقیقی معنوں میں صرف اسرائیل کا دوست ہے اور اسکے تمام اقدامات اسرائیلی مفاد میں ہی ہوتے ہیں۔