تحریر : واٹسن سلیم گل
اس میں کوئ شک نہی کہ ہماری فوج کا شمار دنیا کی چند بہترین اور طاقتور افواج میں ہوتا ہے۔ پاکستانی افواج کا موٹو ایمان ، تقوی اور جہاد ہے ۔ افواج پاکستان کی چُستی ، طاقت اور مہارت کا اندازہ اگر لگانا ہے تو اس کا موازنہ ہندوستان کی فوج کو سامنے رکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کی فوج پاکستان سے تین گُنا زیادہ بڑی ہے۔ ان کا دفاعی بجٹ 2006 میں 47 ارب ڈالر سے بڑھکر 2016 تک 56 ارب ڈالر تک ہوگیا ہے جو کہ ان کی (جی ڈی پی) کی مجموعی پیداوار کا 2،5 فیصد ہے۔ اس کے مقابلے میں ہماری افواج کا دفاعی بجٹ 5،7 ارب ڈالر ہے ۔ جو کہ بھارت کے مقابلے میں کچھ بھی نہی اس کے باوجود بھی ہم بھارت کی ٹکر میں نیوکلر پاور بن چُکے ہیں۔ اور اب بھارت کی جرُات نہی کہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔ بیرونی خطرات سے تو ہم محفوظ ہیں مگر ہمارے داخلی امور کچھ نرالے ہی ہیں۔
ہمارے حکومتی نمایندے یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کے انتظامی امور کو مکمل طور ہر ہماری فوج سنمبھال لے۔ اور ہمارے حکومتی نمایندے صرف جمہوریت کے ریشمی دھاگوں سے بنے بستر پر سوتے رہں۔ عیاشی کریں۔ مزے لوٹیں اور پھر سو جاہیں۔ مجھے آج تک اس جملے کی سمجھ نہی آئ جو جملہ ہماری دانشور ، مفکر تجزیہ نگار اور سیاستدان میڈیا پر بیٹھ کر دھراتے ہیں کہ بُری سے بُری جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے۔ میں اس قول سے اتفاق نہی کرتا۔ جمہوریت اور آمریت دراصل ایک سوچ ایک رویہ کا نام ہے ایک منتخب وزیراعظم بھی آمر بن سکتا ہے اور ایک فوجی بھی اگر حکومت سمبھال کر عوام کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کر دے ان کو روٹی ،کپڑا اور مکان دے دے تو میرا نہی خیال کہ پھر عوام جمہوریت کی تلاش کریں گے۔
آج ہمارے ملک میں جمہوریت دراصل آمریت کی مرہون منت ہے۔ تقریبا سارے ہی انتظامی امور میں آپ کو کسی نہ کسی صورت میں (فوجییت) کی ضرورت نظر آئے گی۔ بھائ اگر ملک کے سارے امور ان فوجیوں نے ہی چلانے ہے تو ہمارے سیاستدان ، پارلیمان اور حکومت اسمبلیوں میں آم لینے آتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی فوج اس ملک کی حفاظت کی ضامن ہوتی ہے۔ ہماری فوج بھی اپنی زمہ داری بخیرخوبی انجام دے رہی ہے۔ ہمارے فوجی ادارے بھی بیرونی خطرات کے حوالے سے ہر وقت چوکنا اور تیار رہتے ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں فوج کے کاندھوں پر دوسری زمہ داریوں کا بوجھ بھی دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔
وفاقی اور صوبائ داخلی امور حکومت کا کام ہے۔ اپنی عوام کی جان و مال کے تحفظ کی داخلی زمہ داری وزارت داخلہ پر ہوتی ہے جس کے زیر سایہ ہوم سیکٹری اور پولیس کا نظام ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں اب یہ زمہ داری بھی فوج کے ہاتھوں میں دے دی گئ ہے۔ بات ضرب عضب تک تو سمجھ میں آتی تھی اب تو چھوٹو گینگ اور موٹو گینگ کے لئے بھی ہماری پولیس ناکارہ ہوچکی ہے۔ لگتا ہے کہ آگے چوروں اور جیب کتروں کی سرکوبی کی زمہ داری بھی فوج کے حوالے کر کے ہمارے وزیر کبیر پولیس افسران کے ساتھ منگ پتہ اور کیرم بورڈ کھل رہے ہونگے۔ ملک میں الیکشن کے دوران امن و امان قائم رکھنا بھی پولیس اور سویلین اداروں کی زمہ داری ہوا کرتی تھی ۔ مگر وہ اب اس کام سے بھی گئے۔ اب جب تک الیکشن فوج کی سرپرستی میں نہ ہو کوئ فریق بھی اس الیکشن کی شفافیت کو نہی مانتا ۔ آنے والی مردم شماری کے انقعاد کے لئے اسی فوج کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
سیاسی پارٹیاں دھرنے دیتی ہیں تو اسی فوج کی انگلی کے اٹھنے کا انتظار کرتی ہیں۔ اور تو اور ان دھرنوں کو روکنے کے لئے حکومت کو بھی اسی فوج سے مداخلت کی درخواست کرنا پڑتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مستقبل میں ہمارے سیاستدانوں کو سوائے پارلیمنٹ میں بیٹھنے اور اپنی مراعات سے مصتفید ہونے کہ اور کوئ کام نہی ہوگا اور سب انتظامی زمہ داریاں فوج اٹھا لے گی۔ اگر پی آئے اے ہڑتال کرے گی تو ہماری فضایہ حرکت میں آ جائے گی اور اپنے جاں باز شاہنوں کو پی آئ ای کے پیسنجر جہازوں کو اڑانے کی زمہ داری دے گی۔ ڈاکٹر ہڑتال پر جاہیں گے تو فوجی ڈاکٹر دستیاب ہونگے ۔ انصاف بھی اب صرف فوجی عدالتوں میں ہی نظر آرہا ہے ۔ جہاں سے دہشتگردوں کو سزا مل رہی ہے۔ اور تو اور ہوسکتا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کی ناکامیوں سے تنگ آ کر ہمارے فوجی جوان کرکٹ کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیں۔
پھر قومی ٹیم میں بھی ہمیں میجر ملک اور کیپٹن خان نظر آہیں۔ ایک طرف تو ہمارے سیاست دان اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں ، ایک دوسرے کی مخالفت میں اتنے آگے چلے جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کو ملک دُشمن، یہودی ایجنٹ اور را کا ایجنٹ قرار دینے سے بھی گریز نہی کرتے مگر وقت پڑنے پر منافقت کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ اور پھر آپس میں شیرؤشکر ہو جاتے ہیں۔ اس وقت فوج کا کردار جمہورت کے حوالے سے بہت مثبت ہے۔ اور فوج کی جانب سے محاز آرائ دُور دُور تک نظر نہی آ رہی مگر پھر بھی جنرل راحیل شریف کے پانامہ لیکس اور احتساب سے متعلق بیان پر ہمارے سیاستدانوں کے منہہ کُھلے کے کُھلے رہ گئے ہیں۔ ساتھ ہی حزب اختلاف سے تعلق رکھنی والی چند مزہبی پارٹیوں کی رال ٹپکنے لگی ہے۔ مگر اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو آرمی چیف اپنے ایک لفٹننٹ جنرل ایک میجر جنرل سمیت اپنے گیارہ سینئر آفیسرز کو کرپشن کے چارجز پر کٹہرے میں کھڑا کر سکتے ہیں وہ دوسروں کے ساتھ کیا کریں گے۔ ویٹ اینڈ واچ۔
تحریر : واٹسن سلیم گل