تذویراتی، سفارتی اور خارجہ حکمت عملی مفادات کا نام ہے۔ اس میں کبھی یکسانیت نہیں رہتی۔ وقت اور حالات کے بدلاؤ میں اس میں بھی تبدیلیاں ناگزیر ہوتی ہیں۔ سی آئی اے، پینٹا گون اور وائٹ ہاؤس کے تعلقات کبھی مثالی نہیں رہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ امریکہ کے قومی مفاد کی خاطر یہ سب ایک صفحے پر ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان سب کی اپنی اپنی تاویلات اور دلائل ہیں۔ امریکہ سمیت پوری یورپی یونین کے ممالک نے اپنے سے کمزور ممالک میں جب اور جہاں چاہا انہیں محکوم بنایا اور جب چاہا ان ہی کی سر زمین پر پراکسی جنگ برپا کی۔ امن و امان کو تخت و تاراج کیا۔ شہر اجاڑے، انسانیت روتی بلکتی اور سسکتی چھوڑی۔ انہی ملکوں کو معتوب قرار دیا۔ قیامِ امن اور تعمیر نو کے نام پر دولت سمیٹی اور یہ جا وہ جا۔ جس اسامہ بن لادن کو امریکی سیلز نے ایبٹ آباد میں مارا وہ ہی امریکی سپاہی بشمول سی آئی اے اور امریکی صدر وائٹ ہاؤس کے اوول ہاؤس میں ان سے سرکاری طور پر ملاقاتیں کرتے رہے۔ اور ان کے جنگجو ساتھیوں کو اپنا ہیرو اور مجاہدین قرار دیا۔ وقت کا تقاضہ تھا۔
افغان جنگ میں جنرل عبدالرحمن کے دست راست برگیڈیئر محمد یوسف اور برطانوی فوج کے سابق میجر مارک ایڈ کن نے اپنی مشترکہ تصنیف Bear Trap برفانی ریچھ میں تحریر کیا ہے کہ سی آئی اے نے مصر سے ایک ہزار قران مجید کے نسخے چھپوا کر وسط روسی مسلم ریاستوں میں تقسیم کروائے۔ قرآن مجید کے نسخے تقسیم کرانے کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما تھا کہ مسلم ریاستوں میں بسنے والے مسلمانوں میں قرآنی تعلیم کے زریعے جہاد کی شمع روشن کی جائے اور انہیں افغانستان میں جاری امریکی پراکسی جنگ میں روس کے مد مقابل لایا جائے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ مجاہدین میں ایک بڑی تعداد تاجک، ازبک اور چیچن جنگجوؤں کی تھی۔ یہ بحث طلب بات ہے کہ امریکہ جنہیں کل تک مجاہد کہہ کر پکارتا رہا، آج ان ہی قوتوں کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔ شاید مفادات کی نوعیت بدل گئی ہے۔
عراق میں امریکی لشکر کشی کے وقت کویت میں ایبرل گلاسپی نامی خاتون سفیر تھیں۔ سی این این کے ایک رپورٹر نے جب امریکی سفیر سے امریکی فوج کی نقل و حمل کے بارے سوال کیا تو سفیر موصوفہ نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ان کے علم میں تو ایسی کوئی بات نہیں۔ یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہو گا کہ فوجی نقل و حمل کوئی ایک دو گاڑیوں پر مشتمل کارواں کا نام نہیں بلکہ ٹینک، توپخانہ، گولہ و بارود سے لدے ٹرک فوجی یونٹس اور میڈیکل کور، اور وہ تمام سامان حرب جو جنگ کے دوران استعمال ہوتا ہے اور یہ نقل و حمل کسی شہر بسانے کے سازو سامان سے مماثل ہوتی ہے۔ یہاں یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ امریکی فوج کی نقل و حمل سے وہ امریکی سفیر لا علمی کا اظہار کر رہی تھی جو اپنے جدید سیٹلائٹ نظام کی بدولت بلوچستان کے چٹیل میدانوں میں جپسم، کرومائٹ اور دیگر معدنیات کی بھی خبر رکھتے ہیں۔ لیکن یہاں اپنا مفاد تھا لہذا خاموشی بہترین نسخہ قرار پایا۔
عراق پر حملے سے قبل پاکستانی نجی ٹی وی پر بحث و تمحیص اور ٹاک شوز کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ بہت سے دانشوروں نے عراق کے بارے مفروضوں پر مبنی بڑے تعریفی کلمات کہے اور زمین و آسمان کے قلابے ملائے۔ دوسری طرف سی این این حقائق پر مبنی رپورٹ دے رہا تھا۔ امریکہ نے عراق پر پہلے فضائی حملے کے دوران ہزاروں من بارود استعمال کیا اور سی این این نے یہ حملہ براہِ راست نشر کر دیا۔ جمہوری اقدار اور آزادی رائے کے اظہار کے ڈونگرے برسانے والے امریکہ نے اس حملے کے فوری بعد یہ پابندی عائد کر دی کہ عراق میں متعین امریکی میڈیا کوئی بھی خبر پینٹا گون کی اجازت کے بغیر نشر نہیں کرے گا۔ پینٹا گون کے ان احکامات کے بعد امریکی میڈیا نے ملکی مفاد میں تعمیل کی۔ کیوں کہ یہاں ملکی مفاد تھا۔