اسلام آباد(ایس ایم حسنین)افغان امن عمل کو شرپسند عناصر کی شرانگزیوں سے محفوظ بنانا ہوگا، افغانستان میں امن کے خطے اور دنیا کے لئے بے پناہ ثمرات میسرآئیں گے۔ افغانستان میں امن واستحکام کا تعلق ’’ایس سی او‘‘ریاستوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے،عالمی برادری تمام فریقین پر زور دے کہ وہ تشدد میں کمی لائیں اور جنگ بندی پر آمادہ ہوں، افغانستان میں امن اور استحکام پاکستان کے لئے ناگزیر اور نہایت اہم ہے، افغانستان میں پاکستان کا کوئی فیورٹ نہیں ہے، ہم بین الافغان مذاکرات کے نتائج کا احترام کریں گے، یہ بات وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے جمعہ کو اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور انسٹی ٹیوٹ فار سٹرٹیجک اینڈ ریجنل سٹڈیز ازبکستان کا ”افغان امن عمل اور شنگھائی تعاون تنظیم“ کے موضوع پر ویبنار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔شنگھائی تعاون تنظیم کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’ایس۔سی۔او ‘ اور اس کے ارکان جو افغانستان کے ہمسائے اور خطے کے ممالک پر مشتمل ہیں، ایک نہایت اہم پلیٹ فارم ہے۔ ’ایس۔سی۔او‘ کے اندر میلاپ اور خوش حالی میں افغانستان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔افغانستان میں امن واستحکام کا تعلق ’ایس۔سی۔او‘ ریاستوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور چار ’’ایس سی او‘‘ ممالک سے اس کی سرحدیں جڑی ہوئی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ’ایس۔سی۔او‘ ماسکو اعلامیہ 2020 میں ’سیاسی مذاکرات اور اجتماعیت کے حامل امن عمل‘ کی اہمیت کو اجاگر کیاگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے اور ان شعبہ جات میں کاوشوں کا متمنی ہے۔بین الافغان مذاکرات کی حمایت کی جائے تاکہ تمام افغانوں کو قبول مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیہ کی راہ ہموار ہو اورافغانستان میں تنازعے کے خاتمے کے بعد افغانستان اور ’ایس۔سی۔او‘ ارکان کے درمیان معاشی تعاون اور انہیں آپس میں جوڑنے کا عمل شروع ہو کہ پاکستان اور ’ایس۔سی۔او‘ افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کا مشترک مقصد رکھتے ہیں جس میں جاری افغان عمل کی حمایت اور خطے میں معاشی ترقی کو تقویت دینے کے لئے روابط استوار کرنا شامل ہے۔ وزیر خارجہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ افغانستان میں امن پورے خطے کی اشد ضرورت ہے اور ہماری مشترک ذمہ داری بنتی ہے۔ ہمیں افغان عوام کومایوس نہیں ہونے دینا۔انھوں نے کہا کہ فغانستان کے پڑوس میں پاکستان خاص طورپر اس تنازعہ کے مضر اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان عالمی ایجنڈے پر موجود ہے اور افغان امن عمل آج درست طور پرعالمی برادری کی توجہ کا مرکز ومحوربنا ہوا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان محض ایک ہمسایہ نہیں بلکہ ہمارے دونوں ممالک کے درمیان تاریخ، عقیدے، ثقافت اور خون کے رشتے استوار ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ افغان تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ تنازعے کے تمام فریقین کا مذاکرات کے ذریعے حل کی تلاش پر اتفاق کرنے سے ہمارے موقف کی تائید ہوئی۔ پاکستان نے امن عمل کی ٹھوس انداز میں بھرپور حمایت کی ہے اور اس عمل کو اس نہج تک لانے میں مثبت کاوشیں کی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اجتماعیت کا حامل، وسیع البنیاد اور جامع تصفیہ نہایت اہم ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ افغان قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے اس تاریخی موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائے۔ ہمارا سب فریقین کے لئے یہی پیغام ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا کوئی خاص پسندیدہ (فیورٹ) نہیں ہے، ہم بین الافغان مذاکرات کے نتائج کا احترام کریں گے، اس کے ساتھ ساتھ امن عمل کو اندر اور باہر سے خرابی پیدا کرنے والے عناصر کی شرانگزیوں سے محفوظ بنانا ہوگا،اپنے حصے کے طورپر پاکستان افغان قیادت میں افغانوں کو قبول عمل کی حمایت جاری رکھے گا، ہم ایسا افغانستان ابھرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں جو داخلی طور پرہی نہیں بلکہ ہمسایوں کے ساتھ پرامن، مستحکم، متحد، خوش حال اور خود مختارہو۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ دوطرفہ سطح پر پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنے روابط کو مضبوط بنایا ہے، تجارت، ٹرانزٹ اور معاشی روابط کو گہرا کیا ہے۔ 19 نومبر2020 کو وزیراعظم عمران خان نے کابل کا دورہ کیا اوردوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے، امن عمل کی حمایت اور تنازعے کے خاتمے کے بعد افغانستان میں تعمیر نو اور بحالی کی پاکستان کی پالیسی کا اعادہ کیا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ایک دوسرے سے جڑنے اور تجارت کے فروغ کی صورت میں افغانستان میں امن کے خطے اور دنیا کے لئے بے پناہ ثمرات میسرآئیں گے۔ وسط ایشیاءاور جنوبی ایشیاءکے ایک دوسرے سے جڑ جانے سے بحر عرب تک رسائی ہوگی جس سے خطے میں تجارت کو بے پناہ ترقی ملے گی۔افغانستان میں امن کے نتیجے میں ’کاسا ۔1000‘ اور ’تاپی ‘ گیس پائپ لائن جیسے توانائی کے دیرینہ منصوبہ جات کو مکمل کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ مشترک تاریخ وثقافت کے ساتھ ہم اس قابل ہوں گے کہ عوامی سطح پر روابط کو فروغ دے کر ان کی حقیقی صلاحیت کو روبہ عمل کریں جس سے خطے کے تمام ممالک کو فائدہ حاصل ہوگا اور خطہ معاشی طورپر نہ صرف باہم یکجا ہوگا بلکہ ہم آہنگی کا محور ومرکز بن جائے گا۔ اس طرح افغانستان کے لئے نئے معاشی امکانات بھی پیدا ہوں گے اور ایسی سازگار فضا بنے گی جس میں لاکھوں افغان مہاجرین عزت ووقار کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکیں گے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ اجتماعیت کے حامل، وسیع البنیاد اور جامع سیاسی تصفیہ تک پہنچنا اگر چہ افغانوں کی ذمہ داری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو امن کے اس جاری عمل میں تعمیری انداز میں افغانستان کے ساتھ روابط کو جاری رکھنا اور تنازعے کے بعد کے مرحلے میں معاشی اور ترقیاتی عمل میں اپنی معاونت کی فراہمی کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ وزیر خارجہ نے پانچ نکاتی ایجنڈے کی تجویز پیش کرتے ہوئے عالمی برادری سے کہا کہ وہ تمام فریقین پر زور دے کہ وہ تشدد میں کمی لانے کے طریقہ کار پر اتفاق کریں جو جنگ بندی پر منتج ہو،مذاکرات کرنے والے فریقین کو آمادہ رکھا جائے کہ وہ سیاسی تصفیہ کی طرف پیش قدمی جاری رکھیں اور تنازعہ کے بعد افغانستان میں تعمیر نو اور معاشی ترقی کے لئے لائحہ عمل تیار کریں جس میں نظام الاوقات کے تعین کے ساتھ افغان مہاجرین کی واپسی شامل ہو۔