وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کو ایک ارب ڈالر واپس کرنے کی وجہ بتادی۔
جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’اپوزیشن میرے بیان کو اس تناظر نہیں سمجھ رہی اس پر سیاسی پوائنٹ اسکورننگ کررہی ہے، اپوزیشن تقاضہ کرتی ہے ہمیں کشمیر کے ایشو کو ہر مناسب فورم پر اٹھانا چاہیے، ہم اقوام متحدہ میں اسے ایک سال میں تین مرتبہ لے گئے، اپوزیشن کشمیر کے مسئلے کو سیاست کی نذر نہ کرے، معلوم ہے اپوزیشن کی بہت مجبوریاں ہیں، انہیں آگے بہت مواقع ملیں گے‘۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ’سعودی عرب ہمارا محسن ہے، ہمیں احساس ہے کہ کتنے پاکستانی وہاں ہیں، ہمیں اس چیز کا بھی احساس ہے کہ انہوں نے آڑے وقتوں میں ہمارا ساتھ دیا، اس زمین کی حفاظت کے لیے ہم اپنی جان دینے کو تیار ہیں لیکن انہیں ہماری عوام کی خواہش کو ذہن میں رکھنا چاہیے‘۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب کا مشکور ہوں انہوں نے ہماری بات کو سنا ہے، کووڈ کے دوران جو کشمیر پر ہماری کانفرنس ہوئی اس پر سعودی وزیر خارجہ کا بے حد مشکور ہوں جس میں انہوں نے حصہ لیا اور عمدہ باتیں کیں، ہمارا مشترکہ اعلامیہ ریکارڈ کا حصہ ہے، اس سے ظاہر ہوگا کہ سعودی عرب ہو یا دوسرے ممالک، انہوں نے کشمیر کے درد کو سمجھا ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’میری گزارش ہے اور میں کہتا رہاہوں کہ مقبوضہ کشمیر پر کونسل آف فارن منسٹرز کا اجلاس مناسب فورم ہوگا، سفارتی دنیا میں جو اس کا اثر ہوگا وہ کسی اور چیز کا نہیں ہوگا، سعودی عرب کا ہمدردانہ رویہ تھا‘۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ’مقبوضہ کشمیر میں ایک سال میں حالات بگڑے ہیں، اس حوالے سے امریکی وزیر خارجہ پومپیو سے بھی بات ہوئی، انہیں بتایا کہ ایک سال میں کشمیر کی صورتحال کس طرح بگڑی ہے، سارے حالات ان کے سامنے رکھ دیے ہیں‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں سعودیہ کی جو اہمیت ہے وہ بہت ہے اور ان کا وزن زیادہ ہے، اگر وہ ہمارے پلڑے میں پڑ جاتا ہے تو او آئی سی کا اجلاس مناسب ہوسکتا ہے‘۔
ایک ارب ڈالر واپسی کے سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’کورونا وائرس کی وجہ سے سعودیہ کی معیشت پر کافی دباؤ آیا ہے، تیل کی قیمتیں جس طرح گری ہیں یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، اس کا اثر ان کی معیشت پر پڑا، انہوں نے ہماری مشکلات کو سمجھا اور ہم نے ان کی مشکلات کو سمجھنا ہے ان کے لیے ہم کل بھی حاضر تھے آج بھی حاضر ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب کے ساتھ کوئی کشیدگی نہیں، تعلقات برملا اور ٹھوس ہیں اور رہیں گے، سعودی عرب اپنا ہے ان سے محبت کا رشتہ ہے ان سے تاریخی تعلقات ہیں‘۔