تحریر : مدثر اسماعیل بھٹی
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ کسی جنگل میں بیماریاں پھیلنے لگیں اور بڑی تعداد میں جانور وں کی اموات ہونے لگیں تو جنگل کے بادشاہ شیر نے تما م جانوروں کو اکٹھا کیا اور بیماری کے علاج اور روک تھام کیلئے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ بند رکو شہر بھیجیں گے جو اس بیماری کا علاج سمجھ کر آئے گا۔بندر کو بھیج دیا گیا جب وہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد واپس آیا تو تمام جانوروں نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا کہ وہ انکی زندگی کی امید بن کر لوٹا ہے ۔کچھ دن گزرنے کے بعد ایک جانور بیمار پڑ گیا تو اس کیلئے بندر کو بلایا گیا !بند ر نے اس جانور کو اوپر نیچے سے دیکھا اور اس کے دائیں بائیں اوپر نیچے اچھل کود کرنے لگا اسی اثنا ء میں اس جانور کی موت ہو گئی تو باقی جانوروں نے پوچھا کہ یہ کیا ………..؟ تم نے کوئی علاج نہیں کیا اور اس کو مرنے دیا ؟بند ر نے کہا دیکھو بھائی میں نے تو بڑی بھاگ دوڑ کی تھی لیکن کیا کروں اسکی زندگی ہی اتنی تھی بیچارہ مر گیا۔
ایسا ہی کچھ حال ضلع جھنگ کی تحصیل میونسپل کا ہے جس کے پاس ہر قسم کی سہولیات کے ساتھ ساتھ وافر مقدار میں عملہ بھی موجود ہے لیکن آج تک وہ ضلع جھنگ میں صفائی جیسے معاملات کو یقینی نہیں بنا سکے ۔سال 2013 سے امسال تک تحصیل جھنگ کی حدود میں ٹی ایم اے کی آفیشیل ویب سائٹ کے مطابق ایک سو پچاسی کروڑ روپے کی لاگت سے گلیاں اور نالیاں بنائیں جا چکی ہیں جو کہ نہایت مضحکہ خیز لگتا ہے کیوں کہ اتنے بھاری بھرکم فنڈ میںاتنے کم حدود اربعہ میں صرف گلیوں اور نالیوں کی تعمیرات کا بننا یا تو عوام کے ساتھ کھلا مذاق ہے یا پھر استحصال کا منہ بولتا ثبوت ۔یہاں پر میں ٹی ایم اے جھنگ کے کی کرپشن کے کچھ طریقے زیر بحث کروں گا کہ کیسے عوام کا ٹیکس خرد برد کر کے انجمن افزائش نسل پر خرچ کئے جاتے ہیں۔
آئے روز ہماری نظروں سے ٹی ایم اے عملہ کے کام گزرتے ہیں اور اخباروں کی زینت بھی بنتے ہیں کہ تحصیل میونسپل کمیٹی ایکشن میں تجاوزات کو ختم کرنے کی ٹھان لی ہے!!لیکن کبھی کبھار حقیقت آنکھوں دیکھے حال کے برعکس ہوتی ہے اس وقت در حقیقت تجاوزات کے خلاف آپریشن نہیں کیا جا رہا ہوتا بلکہ ان غریب لوگوں کو ذلیل کیا جا رہا ہوتا ہے جو ٹی ایم او جھنگ کے منظور نظر تاجروں کو انکی دوکانوں کے باہر ریڑھی لگانے کا کرایہ نہیں دیتے اور اگر دکھاوے کے طور پر کسی تاجر کی کوئی بورڈ یا سٹال ٹی ایم اے کا عملہ اٹھا کر لے بھی جائے تو وہ کچھ ہی دیر میں واپس آجاتا ہے ۔جب کہ TMOجھنگ کئی کئی روز آفس نہیں آتا عوام پریشان ہوتی ہے کوئی پوچھنے والا نہ ہے یہاں ایک بات تو واضع ہے کہ ٹی ایم اے جس تھالی میں کھاتا ہے اس میں چھید نہیں کرتا۔
ٹی ایم اے میں اس وقت تحصیل جھنگ کی سطح پر ایک سو سے زائد میٹ کام کر رہے ہیں جنہوں نے اپنی زیر سرپرستی عملہ تعینات کر رکھا ہے جن کو ٹی ایم اے میں انکو کاغذوں تک ہی محدود رکھا جاتا ہے لیکن انکو ماہوار تنخواہیں ملتیں رہتی ہیں جس مد میں ہر ماہ لاکھوں روپے کے لگ بھگ کی رقم منظور نظر لوگوں کے مابین بندر بانٹ کی جاتی ہے جس میں سے پھر حصہ بھی بقدر جثہ چلتا ہے ۔اس ادارے کے ملازمین نے کرپشن کے مختلف طریقے وضع کر رکھے ہیں جیسے ٹیکس لینے والوں میں ایک ہی علاقے میں تین تین ٹیمیں گھوم رہی ہوتیں ایک جاتا ہے تو دوسرا اور پھر تیسرا اور ہر کوئی اپنا اپنا نوٹس دے جاتا ہے دو سو ،پانچ سو کی رنگ برنگی رسیدیں دوکانداروں کو تھما کر ان سے پیسے بٹورے جاتے ہیں۔
جیسا کہ لال خان بھروانہ جوکہ TO(R)ٹی ایم اے جھنگ کا منظور نظر ہے وہ پرائیویٹ کام کرتا ہے لیکن افسیران کو خوش رکھتا ہے اس وقت تحصیل کے جتنے بھی دیہی علاقے ہیں اور ٹی ایم اے کی حدود میں شامل کئے گئے ہیں جن سے تحصیل میونسپل کمیٹی سالانہ کروڑوں روپوں کا ٹیکس ریونیو کرتی ہے کے حالات ایسے ہیں کہ جیسے وہ سرکار کی حدود سے بھی باہر ہوں ان علاقوں کا کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
وہاں کی مٹی سے بھری سڑکیں ،سیوریج سسٹم کی عدم دستیابی ،کچی گلیاں اور گلیوں میں کھڑا فضلات سے بھرا پانی عوام کو اس بات ہر موجود کرتا ہے کہ وہ تحصیل کمیٹی کو کسی قسم کا ٹیکس دینے سے انکاری ہو جائیں لیکن پھر یہ معصوم لوگ دھمکیوں اور جیل کی کال کوٹھڑی کے ڈر سے انہیں پیسے دیتی ہے۔سب سے زیادہ کرپشن تو گلیوں اور گٹروں کے ٹھیکوں پہ کی جاتی ہے جس میں ایکسئین سے لے کر چپڑاسی تک کی کمیشن شامل ہوتی ہے فُل ریٹ پر منظور نظر ٹھیکیداروں کو ٹھیکے دئے جاتے ہیں۔
جیساکہ مورخہ 09-02-2016کو 15لاکھ روپے کا ٹھیکہ ہوا جو چوہدری محمد اسلم TO(I&S)نے اپنے منظور نظر ٹھیکیدار (المدینہ ٹریڈرز )کو الاٹ کروایا دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دن ٹھیکیداران ٹی ایم اے آفس تھے لیکن ایکسیئن صاحب آفس سے باہر تھے پھر بھی ٹھیکہ ہو گیا اور اس ٹھیکیدار کو پے منٹ بھی ہوگئی اور محمد اکرم سب انجینئر کو تبدیل ہوئے تقریبا2ماہ ہونے والے ہیں لیکن TMAجھنگ افسیران نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے اس تمام بل جو کہ بیک تاریخوں میں کئے ہوئے ہیں افسیران پاس کر رہے ہیں لگتا ہے کہ TMAجھنگ میں اور کوئی سب انجینئر نہیں ہیں اور یہ سب کچھ چوہدری محمد اسلم ایکسئین سمیت افسیران بل پاس کررہے ہیں جہاں پیسہ ہو وہاں قانون کیا کرسکتا ہے۔
باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ یہ مثال ان پر ہے انجینئرز حضرات بغیر کسی وزٹ کے سب اچھا کی رپورٹ دے دیتے ہیں اکاؤنٹ والے کام شروع ہونے سے پہلے ہی تمام رقم کلئیرکرا کر بھاری کمیشن وصول کرتے ہیں اگر نیب انکوائیری کرے تو ٹی ایم اے جھنگ میں ایسے لوگ بھی ملیں گے جو خاک روب ہیں لیکن کروروں کی جائیداد بنا کر بیٹھے ہیں اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ افسران نے کتنا پیسہ بنایا ہوگا۔
جسم میں اگر کوئی ناسور بن جائے تو اس میں موجود گندہ خون صاف کر کے ناسور کا علاج کیا جاتا ہے اور جسم کو بچا لیا جاتا ہے ۔ٹی ایم اے جھنگ کے افسران بھی ہمارے ملک کیلئے کسی ناسور سے کم نہیں !ایسے کرپٹ لوگوں کو اگر اسی طرح کھلا چھوڑے رکھا تو یہ یاجوج ماجوج کی قوم بن کر اس ملک کو ہڑپ کر جائیں گے۔
تحریر : مدثر اسماعیل بھٹی