ہماری ساری سیاسی صورتحال سرگرمی کا شکار ہے، یہ جانتے ہوئے کہ گرمی کا اسکیل بھی 45 ڈگری سے نیچے نہیں آرہا، کوئی بھی ہار ماننے کو تیار نہیں؛ اور ماننی بھی نہیں چاہیے۔ اخلاق کا تقاضا ہے کہ جس پارٹی کو آپ نے مسلسل 5 سال نشتر چبھوئے ہوں اور جواباً آپ کی بھی جی بھر کے خاطر مدارت ہوئی ہو، عین وقتِ رخصت آپ اسے دوائیوں سے رخصت کرنے کے بجائے بریانی کھانے لگ جائیں۔ (نہیں نہیں شادی کی بریانی کی بات نہیں ہو رہی، یہاں ویسے بھی بریانی بہت مشہورو معروف ڈِش ہے، اور بے وقت کی شادی پاکستان میں کم از کم بریانی جتنی عام نہیں ہے۔)
خیر! کھانے پینے سے قطع نظر میرا مؤقف یہ ہے کہ ہر کام وقت پر ہی اچھا لگتا ہے، اور شکر ہے کہ اس بار بریانی کی دیگ وقت پر کُھل گئی تھی۔ نہ کھلی ہوتی تو دوسری پارٹی نے زبردستی کھول دینی تھی۔
لیکن آفرین ہے کہ یہ اہم کارڈ ہاتھ سے نکلنے پر بھی دوسری پارٹی نے ہار نہیں مانی اور کوشش کی ہے ایک نئے ادبی ولولے سے شب خون مارنے کی۔ لیکن بھلا ہو پاکستانی عوام کا جس کا ادبی ذوق لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اورگرمی نے اس بری طرح مارا ہے کہ ہر ذی نفس جوتا ہاتھ میں اٹھائے نظر آتا ہے اور جو قابل مرمّت نظر آئے اس پر آزماتا ہے۔
امکان غالب یہ ہے کہ جاتے جاتے کی جانے والی یہ ادبی کاوش بھی مذمت، مرمت وغیرہ کی نظر ہو جائے گی اور اہل علم اس سے کما حقہ فائدہ نہ اٹھا پائیں گے۔ افسوس۔
لیکن ایک بات قابل تعریف ہے، اور وہ ہیں دھڑا دھڑ بننے والی سڑکیں۔ وللہ پاکستان میں بھی ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی کہ جتنی دیر میں آپ چائے کا کپ بناتے ہیں اتنی دیر میں ہمارے ہاں یہ لمبی سڑک تیار ہو جاتی ہے۔ یہ الگ سوال ہے کہ قابل استعمال کتنا عرصہ رہے گی؟ اللہ جانتا ہے جی گارنٹی تو انسان کی بھی نہیں ہے۔ مجھے تو ساری عمر کسی ایسے پوائنٹ کی تلاش رہی تھی جوانگریزوں کی ترقی سنانے والے کے منہ پر مارا جا سکے۔ صد شکر کہ میسر ہوا۔ باقی عمر اب (خودساختہ) فخر میں کٹے گی۔
کہا جاتا ہے کہ جانے والے کو ہمیشہ اچھے لفظوں میں یاد کرنا چاہیئے (یہ تو پتا نہیں کون جا رہا ہے اور کون آ رہا ہے۔) اور اگر اس نےاچھے کام بھی کئے ہوں تو کیا ہی بات ہے۔ اچھے کاموں سے یاد آیا کہ اس بار جو بچوں کو لیپ ٹاپ دیے گئے ہیں ان کی memory بہت زیادہ ہے۔
“کتنی ہے؟” میں نے پوچھا۔
“اتنی کہ اس میں 1000 موویز بیک وقت اسٹور کی جا سکتی ہیں۔” بچے نے خوشی سے اپنے نئے لیپ ٹاپ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بتایا۔
وہی بچوں کی بچگانہ سوچ۔ گفٹ دینے والے کا اس میں کیا قصور کہ چیز کہاں استعمال ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ “خدا گنجے کو ناخن نہ دے” لیکن کہنے والے نے یہ نہیں کہا کہ اگر خدا نہ دے لیکن حکومت دے دے تو پائیوڈین سے آرام آئے گا یا زخموں کو کھلا چھوڑنا بہتر ہوگا۔ اس ٹاپک پر لیپ ٹاپ اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے تمام اسٹوڈنٹس کو ریسرچ کرنی چاہئے تاکہ ملک میں صحت کی صورتحال بھی بہتر ہو۔ اور ہمارے امراء کو علاج کے لیے ملک در ملک کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔