تحریر : کلیم احمدعاجز،پٹنہ
میر دریا ہے سنو شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے ، طبیعت کی روانی اس کی
میر صاحب شاید اٹھارہ بیس سال کے تھے۔ ان کی شاعری اکبر آباد سے نکل کر دور کے شہروں میں پہنچ چکی تھی۔ ماموں کی قید و بند سے گھبراکر میر صاحب اکبر آباد چھوڑ کر بھاگے ،دہلی آئے۔ گرمی کی شدت میں حوض قاضی پر پانی سے اپنی پیاس بجھا رہے تھے کہ ایک دہلی کا باشندہ بھی پانی کی تلاش میں آنکلا ۔ میر صاحب کو حوض کے کنارے دیکھ کر بول اٹھا۔ ” شما میر ہستی”؟
کیا تم میر ہو؟۔ دہلی کے ایک باشندہ نے میر کو پہچان لیا۔ گرچہ انہیں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ دریا کی روانی میر سے پہلے اکبر آباد سے دہلی پہنچ گئی۔ میر کا سوز و ساز ، میر کا درد و داغ، میر کی جستجو و آرزو، اس روانی کے دوش پر میر سے بہت آگے آگے سفر کر رہی تھی اور پھر یہی ہوا۔
مرثیے دل کے بہت کہہ کے دئے ہیں اس نے
شہر دہلی میں ہے سب پاس نشانی اس کی
میر کے ٧٢ نہیں ١٧٢ سہی یا ٢٧٢ سہی، بہر حال ان نشتروں کی بنیادی صفت یہی ہے کہ وہ سانسوں کے ذریعہ کانوں کے ذریعہ براہِ راست دل میں سما جاتے ہیں۔ پھر ہم ان کے معانی کو اور آفاقیت کو سوچتے ہیں ،دل کے کھلے ہوئے دروازے سے وہ دل میں پہلے داخل ہو جاتے ہیں۔ سوچ کا کام اگلا قدم ہے، پہلا نہیں۔ میں نے امریکہ کے شہر شکاگو میں ایک سفید ریش دہلوی بزرگ سے مسجد میں ایک شعر سنا ۔ اردو کی بستی سے بہت دور۔ شہر کی اجنبیت اور مقام کے تقدس کے باوجود میرے حواس ہر طرف سے سمٹ آئے۔ ان کی زبان سے شعر سننے کے دوران میرے کوئی حواس کام نہیں کررہے تھے۔شعر دو سکنڈ میں داخل دل ہو گیا۔ معنی داخل نہیں ہوا۔ پھر دیر کے بعد میں نے معنی سمجھا اور اپنی قسمت کا شکوہ کیا۔ پچاس سال سے میر پڑھتے پڑھاتے گذرے۔ لیکن یہ شعر مری واقفیت سے دور رہا۔
تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شاعری کے لئے کان پہلے کام کرتے ہیں ۔یہی حال موسیقی کا بھی ہے۔ سنگ تراشی، مصوری ، رقص کے لئے آنکھیں پہلے کام کرتی ہیں ۔ رودکی کا ایک شعر سن کر خراسان کا بادشاہ ملک گری کی ہوس میں تمام تقاضوں ،چاہتوں کو فراموش کرکے چھ ماہ سے ایک دوسرے ملک کا محاصرہ کئے ہوئے تھا۔سارا لشکر، گھر اور وطن کی محبت میں چور چور بادشاہ کی اطاعت میں دل مسوسے پڑاتھا۔ رودکی کاایک شعر سنتے ہی ایسا بے قرار ہوا کہ اپنے مقام سے اٹھا ، گھوڑے کی لگام تھام کر ایک پائوں میں جوتی پہنا دوسرے پائوں میں پہننے کی تاخیر گوارہ نہ کر، ننگے پائوں گھوڑے کو مہمیز لگا کر پورے لشکر کو واپسی کا حکم دے کر سرپٹ گھر کی طرف گھوڑا دوڑا دیا۔
مصرع تھا۔ع بوئے جوئے مولیاں آید ہمی پانچ لفظوں کا یہ مصر ع بجلی کی رفتار سے دل میں سما گیا۔ پھر بادشاہ کو اور کچھ یاد نہ رہا۔نادر شاہ جیسا جابر، ظالم بادشاہ میان سے تلوار نکال کر جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑا ہو گیا اور شہر میں قتل عام کا حکم دے دیا۔ گلیوں گلیوں خون کی ندیاں بہنے لگیں۔ شہر کا شہر غارت ہونے لگا۔ مگر بادشاہ کے دل میں رحم کی ایک سرسری بھی نہیں ہوئی۔ نظام الدولہ نے تلوار کمر سے کھول کر گلے میں لٹکائی۔ جرأت کرکے نادر شاہ کی تیغ برہنہ کے سامنے آیا۔ اور زنّاٹے سے ایک شعر پڑ ھ دیا۔
کسے نماند کہ اورا بہ تیغ ناز کشی پہلے ہی مصرع میں نادرشاہ کا تلوار پر کھنچا ہوا ہاتھ نیچے آگیا۔ دوسر ا مصرع پڑھا۔ مگر کہ زندہ کنی شہر را و باز کشی
دوسرا مصرع ختم ہوا تو نادر شاہ کی تلوار میان میں جا چکی تھی۔ وہ گھوڑے کی طرف بڑھا او رشہر کے دروازے سے باہر نکل گیا او رساری فوج نے شہر چھوڑ دیا۔ شاعری کے ان تمام معجزات میں شعر کی روانی کا عنصر غالب ہے کہ کان سے دل تک تمام رکاوٹیں ختم ہو جاتی ہیں اور دل میں پہنچتے ہی معنی اور شعر کی تمام صفات اپنا کام کر جاتی ہیں۔ افتخار راغب صاحب کا مجموعہ میرے سامنے ہے۔ میں نے نہ مسودہ کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے ،نہ غزلیں توجہ سے پڑھی ہیں۔ میری نظر صفحہ الٹتے ہی ایک غزل پر جم گئی۔
ترک تعلقات نہیں چاہتا تھا میں
غم سے ترے نجات نہیں چاہتا تھا میں
کب چاہتا تھا تیری عنایت کی بارشیں
شادابیِ حیات نہیں چاہتا تھا میں
میں ہی تمہارے ذہن پہ ہردم رہوں سوار
اتنا بھی التفات نہیں چاہتا تھا میں
کیا حال اب ہے ترے تعاقب میں اے حیات
تو یوں ہی آئے ہاتھ، نہیں چاہتا تھا میں
راغب وہ میری فکر میں خود کو بھی بھول جائیں
ایسی تو کوئی بات نہیں چاہتا تھا میں
مری توجہ ان اشعار کی برجستگی ، بے ساختگی اور روانی پر ہے ،جو اس دور جدیدیت میں غزل سے فرار اختیار کر رہی ہے اور تاثیر کی ایک بہت بڑی اور نمایاں خوبی رخصت ہو رہی ہے۔ یہ ہمارے پیش روئوں کی گرفت میں تھی اور وہ اسی کو شعر کی پہلی خوبی سمجھتے تھے۔ اس دورِ جدت پسندی میں معنی و مفہوم کی پیچیدگی اور اسے بلندی پر لے جانے کی محنت اور کوشش شعر کے سرمایہ تاثیر اور صفائی کو کھو رہی ہے ۔ پھر اور کیا رہ گیا شاعری میں۔ ایک بڑے آدمی نے کتاب پر ایوارڈ دیتے ہوئے کہا ” سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے؟”
قطع نظر اس کے کہ یہ مصرع نا مکمل ہے۔ کوئی بلند خیالی کو ظاہر نہیں کرتا۔ مصرع کی جوخوبی ہے، اس کے سبب سے نہیں بلکہ نغمہ و ساز کے ذریعہ زبانوں پر آیا ہے اور جاری ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک اور مصرع سنئیے۔ ع آنکھوں میں کہیں آنسو نہ رہے ، سینے میں کسی کے دل نہ رہا مصرع لکھ کر چھوڑ دیتا ہوں۔ آگے کچھ نہیں کہتا۔ تو افتخار راغب کے ان اشعار کے متعلق یہ دوسری بات کہوں کہ یہ اشعار بتا رہے ہیں کہ ان کا خالق کوئی بڑا جدت پسند شاعر ہے کہ اس نے غزل کے ہیرو کی شناخت ہی بدل دی ہے۔ وہ محبوب سے نیاز مند بھی ہے مگر بے نیاز زیادہ ہے۔
وہ خود سے زیادہ محبوب کا احترام کرتا ہے۔ بات اپنی کہتا ہے مگر وہ کہتا ہے کہ
ع دشنام یار طبع حزیں پر گراں نہیں یہ اہتمام کہاں ہے اب شاعروں میں، دکھائو؟ یہ اس لئے کہ شاعر کا ذہن روایات کی صالح قدروں سے بہت مضبوط اور وفادار رشتہ رکھتا ہے۔ جو کردار کی پختگی اور وزن کا ثبوت ہے۔ بے وزن کاغذ کے ٹکڑے کی طرح اڑتا نہیں رہا ہے۔ روانی اور برجستگی میں یہ طاقت ہے کہ وہ دل کے خلوص کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ بات روانی سے کہی جائے، بے ساختگی سے کہی جائے او راس میں منافقت چھپی رہ جائے۔ سادگی اور منافقت سے بیر ہے۔ یہ دونوں ایک ساتھ نہیں جمع ہو سکتے۔
مجھے یاد ہے۔ بہت دن ہوئے ہم لوگ دہلی کلاتھ ملز کے سالانہ مشاعرہ میں تھے۔ بڑے بڑے شاعر پڑھ رہے تھے۔ لکھنو کے ایک ہندو شاعر نے ایک مطلع پڑھ دیا ۔ ایسا معلوم ہوا کہ تمام شاعروں نے اپنی بیاض رکھ دی کہ اب کیا غزل پڑھیں۔ وہ مطلع یہ تھا۔ کہنے کو یوں تو ترک محبت کی بات ہے ناصح مرے لئے توقیامت کی بات ہے
غور کرو تو یہ مطلع کہاں سے کہاں جاتا ہے۔ کائنات کے پورے دردمندوں کی داستان اس میں چھپی ہوئی ہے۔ کہتے جائو او رکاغذ سمیٹتے جائو۔ کاغذ ختم ہو جائیں گے ، مگر داستان ختم نہیں ہوگی۔
نہ آئیں اہلِ خرد وادیِ جنوں کی طرف
یہاں گذر نہیں دامن بچانے والوں کا
بہار کے گورنر مسٹر آر ایل بھاٹیہ صاحب نے مختصر گفتگو میں شاعری سے بحث کرتے ہوئے اس شعر پر اپنی گفتگو ختم کردی۔اب جتنی شاعری ہے ، عموماً دامن بچا کر کہی جاتی ہے، اگردامن نہ بچائیں تو بیچ بازار میں بھانڈہ پھوٹ جائے۔ چلتے چلاتے دو چار شعر راغب صاحب کا اور سن لیا جائے کہ زیادہ موقع مجھے گفتگو کا نہیں۔ کسی کے لئے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کچھ لکھ دوں، اس سے زیادہ کروں تو تقاضے ہاتھ پائوں سلامت نہیں رہنے دیں گے۔
کرو ذکر صحرا نووردی کا بھی
تعارف کرائو اگر دھوپ کا
موجودہ شاعری پر شعرمیں بہت بڑا طنزہے جو وجدان اور تجربوں سے تقریباً خالی ہے۔ الفاظ کے بے مہابا استعمال میں تجربوں کی دنیا کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔ جدید شاعری زندگی سے خالی ہے۔ اس میں سانس ہے ،مگر سانس چلتی نظر نہیں آتی۔ جدید شاعری میں عوام کا بہت ذکر ہے ۔ عوام کے گھائل دلوں کا، زخم خوردہ زندگی کا فوٹو بہت کھینچا جاتا ہے۔ مگر وہ تصویر یں ایسی تصویریں ہیں کہ ان میں سچی زندگی کی تھوڑی سی بھی حرارت نہیں۔ کیوں کہ ان میں صرف دھوپ کی گرمی ، مصائب کی سختی ، الام کی زہر افگنی کا نام و نشان ہے۔ الفاظ تو ہیں مگر ان میں کوئی جان نہیں ہے۔ اس لئے کہ دھوپ کا تعارف جو صحرا نوردی کے تجربے کے بغیر ٹیبل پر بیٹھ کر ، چائے یا شراب کی چسکی لیتے ہوئے پیش کیاگیا ہے ۔
تخیل میں ہے ایک سورج مکھی
عیاں ہے غزل پر اثر دھوپ کا
شعر کہتے ہوئے نہ جانے راغب صاحب کے پیش نظر زندگی کا تجربے کا کون پہلو تھا۔ معلوم نہیں ،شاید انگریزی کا یہ جملہ ان کے پیش نظر تھا جسے انگریزی ادب کا بہترین جملہ کہا گیا ہے۔O Sun flower weary of time سورج مکھی کا پھول آفتاب کے طلوع ہونے کے ساتھ کھلتا ہے اور آفتاب کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہے۔ مشرق سے سورج کے ساتھ ساتھ اس کی ڈالی چلتی ہے اور مغرب میں آفتاب غروب ہو جاتا ہے تو مرجھا کر رہ جاتا ہے۔ یہ شعر انگریزی کے اس مصرعے کا بھر پور او رپر تاثیر ترجمان ہے۔ مجھے راغب صاحب کی قصیدہ خوانی منطور نہیں ہے۔ بالکل نہیں۔ میری ہر تحریر اور شعر کا موضوع یہی ہے کہ سچائی کو نمایاں کرو۔ منافقت اور جھوٹ کی نشاندہی کردو۔ جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے ایک حرف بھی گریز یا سرتابی نہیں کی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ راغب صاحب کی اٹھان اچھی ہے ۔ اگر وہ اپنے فن کے ساتھ مخلص رہے تو وہ اس دورِ جدیدیت میں صحیح رہنما بن سکتے ہیں۔
رہ روِ راہ محبت کا خدا حافظ ہے
اس میں دوچار بہت سخت مقام آتے ہیں
تحریر : کلیم احمدعاجز،پٹنہ