کمالیہ کے ممتاز گجر خاندان سے تعلق رکھنے والی نون لیگ کی سابق ایم پی اے بیگم نازیہ راحیل کو آئندہ الیکشن کے لیے ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ اس بار ان کے شوہر کے بھتیجے سردار یاسر الظاف گجر نے بھی ان کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔
اس خاندان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کمالیہ کے ممتاز گجر خاندان کے سردار متوفی سردار احمد بخش ضلع کونسل کے ممبر رہے اور ان کے چھوٹے بھائی اور نازیہ راحیل کے سسر متوفی سردار الطاف حسین نے پہلی مرتبہ کمالیہ شہر والے صوبائی حلقے (موجودہ پی پی 112) سے 1977ء کے الیکشن میں حصہ لیا مگر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مقابلے میں سابق وفاقی وزیر اطلاعات متوفی خالد احمد کھرل کے چھوٹے بھائی متوفی جاوید کھرل بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے۔ 1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں گجر خاندان کے متفقہ فیصلے پر سردار الطاف ایک بار پھر میدان میں اترے اور انہوں نے پیر ظفر شاہ، ریاض فتیانہ، نواب سعید علی خاں اور رائے ضیا اللہ خاں سمیت تمام امیدواروں کو ہرا کر پہلی اور آخری بار کامیابی حاصل کی۔ 1988 میں متوفی سردار الطاف نے آئی جے آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا مگر ریاض فتیانہ نے بطور آزاد امیدوار انہیں لگ بھگ12 سو ووٹوں سے شکست دے دی۔ 1990 میں ریاض فتیانہ نے آئی جے آئی کے ٹکٹ پرالیکشن لڑا اور آزاد حثیت سے الیکشن لڑنے والے سردار الطاف کو چھ ہزار ووٹوں سے ہرایا۔ 1993 میں بیگم نازیہ راحیل کے شوہر سردار راحیل انوار گجر کے بھائی متوفی سردار سعید انور گجر مسلم لیگ نون کے امیدوار تھے مگر وہ مسلم لیگ جونیجو کے ٹکٹ ہولڈر ریاض فتیانہ سے صرف 1046 ووٹوں سے ہار گئے۔ 1997 میں متوفی سردار سعید انور ایک بار پھر مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر امیدوار تھے جنہوں نے پہلی اور آخری بار ریاض فتیانہ کو شکست دے کر الیکشن جیتا۔ 2002 میں گریجوایشن کی شرط کے باعث خاندان نے پہلی مرتبہ بیگم نازیہ راحیل کو قاف لیگ کے ٹکٹ پر میدان میں اتارا مگر ریاض فتیانہ کی اہلیہ بیگم آشفہ فتیانہ نے بطور آزاد امیدوار نازیہ کو لگ بھگ آٹھ ہزار ووٹوں سے ہرا دیا۔ 2008 میں بیگم نازیہ راحیل نے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر پھر الیکشن لڑا اور اب کی مرتبہ وہ پہلی بار صرف 487 ووٹوں کی لیڈ سے مسلم لیگ قاف کی امیدوار آشفہ فتیانہ کو ہرا کر رکن صوبائی اسمبلی بنیں۔ 2013 میں بیگم نازیہ راحیل نے تیسری مرتبہ مسلم لیگ نون کی طرف سے الیکشن لڑا اور سات ہزار ووٹوں کی لیڈ سے وہ آزاد امیدوار آشفہ فتیانہ کو ہرا کر دوسری بار ایم پی اے بنیں۔2018ء کے آمدہ الیکشن میں ایک بار پھر دونوں خواتین 2013ء کی طرح ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں مگر بیگم نازیہ راحیل کو اب کی مرتبہ اپنے خاندان میں سے بغاوت کا سامنا ہے۔چند روز قبل پریس کانفرنس میں گجر خاندان کے سردار یاسر نے دعوی کیا کہ وہ اب پورے خاندان کے متفقہ امیدوار ہیں اس لیے گجر برادری اب ان کی چچی بیگم نازیہ راحیل کا ساتھ نہیں دے گی۔سردار یاسر نے سجاگ کو بتایا کہ جب 2002ء میں پہلی مرتبہ چچی بیگم نازیہ راحیل کو الیکشن لڑایا گیا تو خاندان میں کوئی بھی گریجوایٹ نہ تھا جب کہ وہ خود اوران کے بھائی سردار نعمان سعید کم عمر تھے۔2008ء میں میرے بھائی سردار نعمان سعید نے کاغذات داخل کروائے مگر ان کی عمر دو دن کم نکلی اور انکے کاغذات مسترد ہو گئے اس طرح ایک بار پھر بیگم نازیہ راحیل کو ہی الیکشن لڑایا گیا۔2013 میں سردار نعمان سعید میدان میں اترے مگر خاندان کے بڑوں نے فیصلہ دیا کہ 2018ء میں نازیہ راحیل الیکشن نہیں لڑیں گی بلکہ سردار نعمان سعید امیدوار ہوں گے اس لیے سردار نعمان سعید دستبردار ہو گئے تھے مگر نازیہ راحیل نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے اب پھر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اب پوری برادری اُن کے ساتھ ہو گی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ “چونکہ پی ٹی آئی کا ٹکٹ مجھے ملنے کا چانس تھا اس لیے نازیہ راحیل نے پی ٹی آئی سے بغیر درخواست دیئے ٹکٹ لے کر ناصرف میرے ٹکٹ میں رکاوٹ ڈالی بلکہ اسد الرحمٰن کو بلیک میل کر کے ان سے صلح کر لی اور مسلم لیگ نون کا ٹکٹ لے لیا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں اب بھی امید ہے کی پی ٹی آئی انہیں امیدوار بنائے گی مگر ٹکٹ نہ بھی ملا تو وہ بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑیں گے۔دوسری طرف نازیہ راحیل کے قریبی ذرائع کا دعوٰی ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا بلکہ نازیہ راحیل کے شوہر سردار راحیل انور خاندان کے بڑے ہیں مگر چونکہ خرابی صحت کی بنا پر وہ الیکشن نہیں لڑ سکتے اس لیے 2018ء میں بھی ان کی جگہ نازیہ راحیل ہی امیدوار ہوں گی۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر سردار یاسر نے اپنی چچی کا مقابلہ کیا تو وہ خود جیتیں یا ہاریں مگر نازیہ راحیل کی شکست کا باعث ضرور بن سکتے ہیں۔ دیکھتے ہیں اب گجر برادری کے بڑے سردار یاسر کو دستبردار کرواتے ہیں یا ان کا ساتھ دے کر نازیہ راحیل کو ان کی مبینہ وعدہ خلافی کی سزا دیتے ہیں؟