تحریر: ثوبیہ شاہد رضا
آج بہت سے لوگ خود کو دنیا کا سب سے دکھی اور پریشان فرد محسوس کرتے ہیں انہیں زندگی سے ہزاروں شکوے رہتے ہیں ایک چھوٹی سی کمی انکی رات کی نیند اڑا لے جاتی ہے ۔اگران میں سے کسی ایک کے پاس زیادہ دولت نہیں ہے تو زندگی سے شکوہ انکے ہاتھ پائوں سلامت ہیں اور رنگت سفید نہیں تو بھی زندگی سے شکوہ۔ اگر سوچا جائے تو ہمارے پاس سب سے قیمتی چیز ہے جسکا صحیح اور درست استعمال ہمیں معاشرے کا کامیاب ترین فرد بنا سکتا ہے جسکی بدولت ہم اپنی ہر خامی اور کمی کو چھپا سکتے ہیںاور وہ ہے ”صحت منداور بھرپور ذہن”جو دنیا کی سب سے بڑی دولت اور قیمتی شے ہے جسکے لیے قدرت نے صرف ہمیں چناہے ۔۔۔!
مگرہمیں ہماری چھوٹی چھوٹی کمیوں کے آگے اس قیمتی شے کا احساس کبھی بھی نہیں ہواحالانکہ ہماری چھوٹی چھوٹی کمیاں اور چھوٹے چھوٹے دکھ ان افراد کے دکھوں سے بہت کم ہیں جن کے پاس یہ اتنا خوبصورت تہفہ نہیں ہے۔۔۔کیا انکے دکھوں سے بھی زیادہ بڑا کسی کا دکھ ہوگا جنکے بہت اپنے انہیں ‘پاگل کہ کر پاگل بنا کر پاگل ثابت کر کے فقط اس لیے پاگل خانے چھوڑ آئے کہ اب یہ پاگل انکے کسی کام کے نہیں رہے دنیا بھر میں آج ایسے بے شمار ادارے بھرے پڑے ہیں جنکے پاس بھرپور اور صہت مند ذہن نہیں ہے۔۔۔!
انکے چاہنے والے جب انکو پاگل خانے چھوڑ کے آتے ہیں تو شاید وہ اس احساس سے بے نیاز ہوتے ہیں آج انکی اس حالت کے ذمہ دار داراصل ہے کون؟یہ معاشرہ،اس معاشرے کی غلط اور بے بنیاد رسمیں،اسی معاشرے میں پلنے والے انکے بہت اپنے۔۔۔جنکی دی ہوی اذیتیں جنکے دیے ہوے دکھ آج انکے ذہنوں پر اتنی گہری چھاپ چھوڑگئے ہیں کہ شاید اب وہ کبھی بھی اپنی اصل حالت میں واپس نہ آسکیں۔اکثر اوقات انکی اس حالت کے ذمہ دار انکے اپنے یا یہ معاشرہ ہی تو ہوتا ہے۔۔۔!
کچھ دن پہلے اپنے مضمون سے متعلق چند معلومات اکھٹی کرنے مجھے پنجاب کے ایک مینٹل ہاسپٹل جانا پڑا ،ہاسپٹل کی جگہ اگر قید لکھوں تو زیادہ مناسب رہیگا۔۔۔کسی وقت اپنی زندگی کا سب سے حسین وقت گزارنے والے بہت لاچار،بہت بے بس لوگ وہاں اپنی زندگی کا بد ترین دور گزاررہے تھے انکی آنکھوں کی چمک بجھی ہوی تھی، مسکراہٹ مانند تھی مگر ان سبکے باوجود نہ تو وہ جھوٹ بول رہے تھے نہ ہی انکے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کدورتیں تھیں اور نہ ہی ان کے پاس سے حسد کی بو آرہی تھی۔۔۔!
گورنمٹ آف پنجاب انکا تین وقت کا کھانا تو پورا کر رہی ہے وہاں صفاٰئی برائے نام ہی سہی مگر کیا وہاں موجود ان تمام لوگوں کی یہی ضرورت رہ گئی ہے؟نہیں انکی سب سے بنیادی ضرورت جنکے سب سے زیادہ ضرورت مند صرف وہی افرادہیںوہ محبت اور خلوص ہے اور یہ ضرورت گورنمٹ پوری نہیں کررسکتی،وہاں انکی دیگھ بھال توکی جاتی ہے مگر وہ خلوص وہ اپناپن وہ چاہت جوانکے اپنے انہیں دے سکتے ہیں وہاں نہیں ملتی۔۔اس بات کی گواہی انکی آنکھیں انکی اداسی دے رہی ہوتی ہے کہ انہیں انکے اپنوں کی محبت اور توجہ کی بے پناہ ضرورت ہے۔۔۔!
معاشرے کے صہت مند افراد آج ہر وہ کام کرتے ہیں جنکے زمرے میں پاگل لوگ آتے ہیںیا شاید وہ بھی نہیں آتے کتنے بڑے بڑے جھوٹ بول کر ،قتل کر کے،کتنے بڑے بڑے دھوکے دے کر پھر بڑی ہی آسانی سے اپنے اوپر اچھائی کا لبادہ اوڑ کر بڑی ہی آسانی سے پھر دوبارہ وہی کام کرتے ہیں، کیا ایسے لوگ ذہنی طور پر صہت مند ہوسکتے ہیں؟ کیا اس معاشرے میں رہنے کے لیئے ایسے افراد نارمل ہیں ان سے بہتر تو پھر پاگل افراد ہی ہوے ناں کہ جنکے دلوں میں رحم بھی ہے اوراحساس بھی۔۔۔!
میرے نزدیک وہاں موجود وہ تمام لوگ اچھے ہیں جنکے چہروں پر اگر مسکراہٹ نظر آتی ہے تو اس مسکراہٹ میں سچائی ہے اس مسکراہٹ کے پیچھے کوئی مفاد نظر نہیں آتاکوئی غرض چھپی نہیں ہوتی ہاں میرے نزدیک وہ لوگ اور وہ مسکراہٹ سب سے سچی اور معصوم ہے۔
معصوم نازک بڑے ہی حساس
تم ہمارے درمیاں سب سے خاص ہو
خود سے زیادہ اپنے ساتھیوںکی پرواہ کرتے ہو
تم ہمارے درمیان سب سے اچھے ہو
نہ جھوٹ نہ دھوکہ نہ ہی دغا
سنو!تم ہمارے درمیان سب سے سچے ہو
عموما دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوان نسل ایک دوسرے کو ہنسی مذاق میں ‘پاگل ‘کہ کر مذاق اڑاتے رہتے ہیں لیکن اگرکبھی وہ واقع پاگل لوگوں کو دیکھ لیںانکے دکھ اور انکی تکلیف کو محسوس کر لیں تو دوبارہ کبھی بھی کسی کو پاگل نہ کہیں۔ خدا نہ کرے کہ کبھی کوئی وہاںجائے لیکن اگر کبھی کسی کا اتفاقاً وہاں جانا ہواتو میری طرح یقیناًاس شخص کے بھی زندگی سے سارے شکوے ختم ہو جائنیگے کیونکہ ہمارے پاس وہ ہے جو انکے پاس نہیں ہے’ایک بھرپور صحت مند توانا ذہن’ ایک ایسا دماغ جو قدرت کی طرف سے ہمارے لیئے بہت بڑا اور قیمتی تحفہ ہے جسکے صحیح اور درست استمعال سے ہم دنیا کو تسخیر کرنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی چیز کے فاتح بن سکتے ہیں ۔۔۔!
تحریر: ثوبیہ شاہد رضا