کراچی ؛سوشل میڈیا جب سے لوگوں کی مٹھی میں آیا ہے،اس نے آزادی اظہار ر ائے کو بھی چھوٹ دے دی ہے ،کسی بھی بڑی سرکاری غیر سرکاری شخصیت کو اپنی فیس بک یا ٹویٹر پر سٹیٹس لگانے یا تصاویر شئیر کرنے کے بعد ناقدین کی اچھی بری باتوں کو بھی سہنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات انہیں ایسی پوسٹ ختم بھی کرنا پڑتی ہیں یا انہیں درست کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔سندھ کے نئے گورنرعمران اسماعیل نے بھی وزیر اعظم عمران خان سے لئے اپنے چالیس سال پرانے آٹو گراف کو ٹویٹر پر شئیر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک پرستار کی حیثیت سے وہ عمران خان کوکرکٹر کی حیثیت میں پسند کرتے تھے اور انہوں نے عمران خان سے حاصل کردہ اس آٹو گراف کو قیمتی ترین چیز سمجھ کر سنبھالاہوا ہے جسے انہوں نے اب گورنر بننے کے بعد عوام کے ساتھ شئیر کیا ہے ۔ تاہم انہوں نے ٹویٹر پر آٹو گراف شئیر کرتے ہوئے جب یہ لکھا کہ ” چالیس سال پہلے میں نے اپنے ہیرو عمران خان سے یہ آٹو گراف لیا اور آج انہی دستخطوں کیساتھ میں چالیس سا ل بعد گورنر سندھ بنا ہوں ،میرے پاس اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے وہ الفاظ نہیں ۔اللہ مجھے نیا پاکستان تعمیر کرنے کی مزید قوت عطافرمائے “ تو صارفین نے اس پر کئی سوال اٹھا دئےے اور ان کے آٹو گراف کو مشکوک قراردے دیا ۔ایک ناقد کے نقطہ اٹھانے پر گورنر عمران اسماعیل کے حمایتی بھی میدان میں اتر پڑے اور تنقید کرنے والے کی اچھی بھلی کٹ لگادی جس پر بعد ازاں وہ یہ کہنے پر مجبور بھی ہوا کہ اس نے تو محض مذاق میں یہ استفسار کیا تھا لیکن دوسرے صارفین نے اسے آسانی سے پھر پیچھے نہیں ہٹنے دےا بلکہ ناقد کے علاوہ بعض صارفین نے عمران اسماعیل کے گورنر گورنر ہاوس میں قیام کرنے پر بھی کڑی تنقید کرڈالی ۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل کے آٹو گراف شئیر کئے جانے پر ایک صارف جے بی جوکہ پرانے بینکار ہیں ،نے لکھا کہ ”اس پر تو کوئی تاریخ ہی نہیں ہے۔ اس لئے ہم کیسے مان لیں کہ یہ چالیس سال پرانا آٹو گراف ہے ۔ویسے اکتوبر1983سے جولائی 1997 تک جب عمران خان اکثر دوبئی آتے تھے تو میں انہیں اپنے کارپوریٹ کلائنٹس سے ملواتا ۔اس وقت ناں آپ تھے ،ناں نعیم الحق ،ناں عون چودھری اور ناں کوئی اور “ اسکے جواب میں رضوان اشرف نامی صارف نے جے بی سے الٹا پوچھ لیا ”اسکاثبوت دیں “اس پر جے بی نے سانس نہیں لی اور جواب میں کہا ” میرا جواب دینا ضروری نہیں ، عمران جانتا ہے ۔میں اسکو شو آف نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میرے پاس پانچ لاکھ فالورز نہیں ہیں ۔ڈاکٹر نصرت صاحبہ کی فوٹوز ہیں ،ان میں عمران خان انکے ساتھ بیٹھے ہیں میٹنگ میں ۔مگر انہوں نے ٹو ٹویٹر پر اپنی یہ تصاویر نہیں دیں ،پوچھ لو ان سے “ یہ جواب ملتے ہی پاکستانی نامی صارف بھی میدان میں کود پڑا اور کہا ” جناب اتنا دھواں مارنے کی ضرورت نہیں …!!انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں نے پی ٹی آئی کے سربراہ سے آٹوگراف لیا تھا۔اس وقت خان کرکٹ کھیلتا تھا، چالیس سال پہلے، اور لاکھوں لوگوں نے آٹوگراف لیا ہو گا “
گورنر سندھ کی عمران خان کے ایک پرستار کی حیثیت سے آٹو گراف تصویر شائع ہونے پربات مزید آگے بڑھی تو جے بی نے اس پر کہا ”یار جن لوگوں کو میں نے ٹیگ کیا ،انکو پتہ ہے میں ان سے مذاق کر رہا ہوں، آپکو بیک گراونڈ کا ککھ پتہ نہیں ،آپ بیچ میں بلا وجہ ٹھس کر پھپّو بن رہے ہیں- ایک بار میری ٹوئٹ کو پھر سے دیکھو میں نے کیا اsmile دی،اس کا مطلب ہے میں انکو چھیڑ رہا ہوں۔اگر آپ نہ سمجھیں تو میں کیا کروں؟“
صارفین کی اس بحث سے موقع پر ایک اور صارف عزیز مغل نے عمران اسماعیل کے گورنر سندھ میں قیام اختیار کرنے پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھا”آپ گورنر ہاوس کیوں رہ رہے ہیں بھائی۔ کپتان نے منع کیا تھا کوئی گورنر ہاوس نہیں رہے گا جبکہ کپتان خود وزیراعظم ہاوس نہیں رہ رہا تو آپ کو بھی گورنر ہاوس میں نہیں رہنا چاہئے۔ گورنر ہاوس کو میوزیم میں تبدیل کر کے اپنا نام تاریخ میں لکھوائیں شکریہ“