سترہ سال قبل جدید جمہوریہ ترکی کی سیاست میں آق پارٹی ایک نئی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو مات دیتے ہوئے پہلے ہی انتخابات میں بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کرلی اور ملک میں کئی برسوں سے جاری سیاسی بحران اور کولیشن کے جھنجھٹ سے نجات حاصل کرتے ہوئے تنہا سیاسی جماعت کے اقتدار کی اب تک کے لئے راہ ہموار کرلی۔
آق پارٹی دراصل مرحوم نجم الدین ایربکان کی سیاسی جماعت رفاہ پارٹی سے تعلق رکھنے والے چند ایک اراکین جن میں اس وقت کے استنبول کے میئر رجب طیب اردوان اور ان کے قریبی رفقائے کار بھی شامل تھے کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے ہی کے نتیجے میں چودہ اگست 2001میں وجود میں آئی اور اردوان کو پارٹی کا پہلا چیئرمین منتخب کیا گیا۔
پارٹی منشور میں چیئرمین کو تین ادوار تک پارٹی کے چیئرمین شپ جاری رکھنے کا پابند بنادیا گیا۔
اور اس مدت کے پوری ہونے پر چیئرمین کے خود مستعفی ہونے اور نئے چیئرمین کو منتخب کرنے کی پابندی عائد کردی گئی تاکہ کوئی بھی مستقل بنیادوں پر زندگی بھر کے لئے پارٹی کا چیئرمین نہ رہ سکے۔
آق پارٹی کے اس اصول کی ترکی بھر میں پذیرائی ہوئی لیکن بد قسمتی سے بعد میں آق پارٹی نےخود ہی پارٹی منشور میں تبدیلی کرتے ہوئے اپنےاس اصول کو منشور سے نکال باہر کیا۔
آق پارٹی کو تشکیل دینے والوں میں اردوان، عبداللہ گل، بلنت آرنچ، ادریس نعیم شاہین، بن علی یلدرم، علی باباجان، عبداللطیف شینر اور احمد داؤد اولو شامل تھے۔
اردوان کچھ اشعار پڑھنے کے نتیجے میں آٹھ ماہ کی جیل کی سزا سنائی جانے کی وجہ سے پارٹی کے قیام کے پندرہ ماہ بعد 3نومبر 2002کو ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے سے محروم رہے لیکن ان کی جماعت نے انتخابات میں ایسی کامیابی حاصل کی کہ ملکی سیاست کا نقشہ ہی تبدیل ہو کر رہ گیا اور پہلی بار کوئی سیاسی جماعت 34فیصد ووٹ لےکر تنہا حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہی۔
اردوان کی عدم موجودگی میں عبداللہ گل آق پارٹی کے پہلے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ اردوان کی رہائی کے بعد ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے پر عبداللہ گل عہدے سے مستعفی ہوگئے اور وزارتِ عظمیٰ کے فرائض اردوان نے سنبھال لیے اور عبداللہ گل کو وزیر خارجہ کا عہدہ سونپ دیا گیا۔
ملک میں صدارتی انتخاب کے بحران پیدا ہونے کے نتیجے میں آق پارٹی نے قبل از وقت انتخاب کروا کر اردوان کے ساتھی عبداللہ گل کو ملک کا نیا صدر منتخب کرلیا گیا جبکہ دیگر دستِ راست علی بابا جان نے پہلے وزیر خارجہ اور بعد میں وزیر خزانہ کے طور پر جبکہ احمد دائود اولو نے اردوان کے مشیر اعلیٰ اور بعد میں اردوان کے صدر منتخب ہونے پر وزیراعظم کے طور پر فرائض سنبھال لئے۔
اسی طرح دیگر دستِ راست بلنت آرنچ اور عبداللطیف شینر نے نائب وزرائے اعظم کے طور پر اختیارات سنبھالے۔ کچھ عرصہ بعد عبداللطیف شینر وزیراعظم اردوان سے اختلافات کی بنا پر پارٹی سے مستعفی ہونے والے پہلے رہنما تھے۔
اردوان کے پہلے دو ادوار جس میں انہوں نے وزیراعظم کی حیثیت سے فرائض ادا کیے۔
ترکی کی تاریخ میں ترقی کے لحاظ سے سنہری ادوار کی حیثیت رکھتے ہیں اور ترکی نے ان ادوار میں ہی جی 20ممالک کی صف میں شامل کیا گیا۔پہلے دونوں ادوار میں ’’ہمسائیوں کے ساتھ صفر پرابلم‘‘ کی پالیسی جس کی بنیاد احمد دائود اولو نے رکھی پر عملدرآمد کرتے ہوئے ترکی کو علاقے کا پُر امن ملک بنادیا۔
ملک کی تیز رفتار ترقی اور کامیاب خارجہ پالیسی کو شاید نظر لگ گئی یا پھر جان بوجھ کر ترکی کو شام کے مسئلے میں اس طرح پھنسادیا گیا کہ ترکی میں شامی پناہ گزینوں کو پناہ دیے جانے پر جس طرح پاکستان کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اب ترکی کی ترقی بھی ان پناہ گزینوں کے باعث بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور سالانہ شرح ترقی تین فیصد تک گر چکی ہے۔
علاوہ ازیں اردوان کےصدر منتخب ہونے کے بعد پارٹی کے اندر اختلافات ابھر کر سامنے آرہے ہیں اور پارٹی کے بانی اراکین میں سے سابق صدر عبداللہ گل، سابق وزیر خارجہ اور سابق وزیر خزانہ علی بابا جان اور سابق وزیراعظم احمد داؤد اولو نے پارٹی سے مستعفی ہوتے ہوئے نئی پارٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔
نئی پارٹی تشکیل دینے کی وجہ انہوں نے پارٹی کا بنیادی اصولوں سے انحراف بتایا ہے۔
ان کے مطابق ملک میں صدارتی نظام متعارف کروانے سے پارلیمنٹ اپنی افادیت کھو چکی ہے اور موجودہ اراکین پارلیمنٹ وزراء تک رسائی حاصل نہ کرنے کا مسلسل شکوہ کررہے ہیں۔ علی بابا جان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ سب سے پہلے ملک کو اسی طرح ترقی کی راہ پر گامزن کردیں گے جیسا کہ وہ پہلے کر چکے ہیں۔
علی بابا جان کی نئی جماعت میں سابق صدر عبداللہ گل اور آق پارٹی کے کئی ایک سابق اراکین پارلیمنٹ نے شامل ہونے کا اعلان کیا ہے، ملک میں جمہوریت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ دائیں اور بائیں بازو دونوں سےتعلق رکھنے والے سیاستدانوں کو پارٹی میں شامل کیا جائے گا۔
علی جان کے مطابق آق پارٹی نے وہ تمام اہداف حاصل کر لئے ہیں جن کو نام نہاد سیکولر دور میں حاصل کرنا بڑا مشکل کام تھا۔ اس لئے اب ملک میں ڈیموکریسی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
علی بابا جان برسر اقتدار آکر پارلیمانی نظام کو بحال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سابق وزیراعظم احمد دائود اولو نے اگرچہ نئی جماعت میں شامل ہونے کا ابھی تک کوئی اعلان نہیں کیا ہے تاہم انہوں نے آق پارٹی سے مستعفی ہوتے ہوئے پارٹی کے اپنے اصولوں سے انحراف کرنے اور جمہوریت کا گلا گھونٹنے کا الزام عائد کیا ہے۔
نئی جماعت کو 2023کے انتخابات میں کتنی کامیابی حاصل ہوتی ہے اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے قیام کے بعد ہونیوالے انتخابات میں آق پارٹی کو لازمی طور پرفرق پڑے گا اور اس کیلئے پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنا اور اقتدار جاری رکھنا ممکن نہ رہے گا۔