5 سے 8جنوری تک اسلام آباد میں اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام چوتھی عالمی ادبی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ میں نے ادارے کے چیئرمین ڈاکٹر قاسم بوگیو سے وعدہ کیا تھا کہ اس میں ضرور شریک ہوں گا مگر بدقسمتی سے کانفرنس کے آغاز سے ایک دن قبل میرے چھوٹے بھائی محسن اسلام کو نیورو سرجری سے گزرنا پڑا ،آپریشن کی نوعیت اور سنگینی کے پیش نظر میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ میں اسے اور فیملی کو اس حال میں چھوڑ کر جا سکتا، سو یہ وعدہ ایفا نہ ہو سکا۔
جنرل اسپتال کے نیورو سرجن ڈاکٹر خالد محمود اور ان کے عملے نے تو آپریشن کی حد تک اپنا کام بہت خوش اسلوبی سے نبھایا لیکن محسن کے بے قابو بلڈ پریشر اور چھاتی اور گردوں کے بعض معاملات کی وجہ سے بھائی کی صحت کے عمل میں کچھ رکاوٹیں ایسی در آئیں کہ کانفرنس کے اختتام تک اس کی حالت ایسی تسلی بخش نہ ہو سکی کہ میں جزوی طور پر ہی کسی محفل میں شامل ہو سکتا۔
ٹی وی‘ فیس بک اور احباب سے بھی رابطہ تقریباً منقطع رہا اور یوں عملی طور پر اس کے اختتامی پروگرام کے سوا (جس کی لائیو کوریج مجھے ٹی وی پر دیکھنے کا موقع مل گیا) میں اس کی روداد اور پیش رفت سے تقریباً نا واقف ہی رہا البتہ گزشتہ دو دنوں میں ادھر ادھر سے کچھ معلومات جمع ہوئی ہیں جنھیں دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، آسانی کے لیے انھیں اس کانفرنس کے مثبت اور منفی پہلو بھی کہا جا سکتا ہے۔
سب سے پہلی مثبت بات تو یہی ہے کہ کئی برسوں کے بے معنی تعطل کے بعد بالآخر اس کانفرنس کا انعقاد ہو ہی گیا جو اپنی جگہ پر اس لیے ایک مثبت خبر ہے کہ تعلیم اور صحت کے بعد ادب تیسرا شعبہ ہے جس کی طرف حکومت کی توجہ سب سے کم ہے، دوسری اچھی بات یہ ہوئی کہ بہت مختصر وقت کے لیے ہی سہی لیکن ملک کے وزیراعظم نے اس کے اختتامی اجلاس میں شرکت کی اور ادیبوں کی بھلائی کے لیے ایک معقول انڈومنٹ فنڈ قائم کرنے کا بھی اعلان کیا تیسری اور چوتھی اچھی بات یہ ہوئی کہ اس میں دیگر ممالک کے چند نمائندوں کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف حصوں سے لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی شرکت کی اور اطلاعات کے مطابق مختلف سیشنز میں ادب سے متعلق موضوعات پر بھاری تعداد میں مقالے پڑھے گئے۔
خبروں کے مطابق ایک مشاعرہ بھی ہوا جس میں بے شمار شاعروں کو حروف تہجی کی ترتیب سے دعوت سخن دی گئی (ذاتی طور پر میں اس طریقے کے سخت خلاف ہوں کہ یہ نہ صرف مشاعرے کی روایت سے روگردانی ہے بلکہ اس میں سینئر شاعروں کی توہین کا پہلو بھی نکلتا ہے، ذرا سی کوشش اور تدبر سے اس طرح کے مسئلے کا حل نکل سکتا ہے مثال کے طور پر اسے ایک ہی دن کرنے کے بجائے کانفرنس کے چاروں دنوں پر پھیلایا جا سکتا تھا ۔ سینئرز اور جونیئرز کی علیحدہ علیحدہ شعری نشستوں کے ساتھ ایک نشست خواتین شعرا‘ کے لیے اور ایک اردو کے علاوہ دیگر پاکستانی زبانوں کے شعراء کے لیے مخصوص کی جا سکتی تھی) بہر حال اکادمی ادبیات نے اپنے مختصر عملے کے باوجود اتنے بہت سے ادیبوں کو جمع کرنے کے ساتھ ساتھ اس میلے کا کامیابی سے انعقاد بھی کر لیا جس کے لیے وہ داد کے مستحق ہیں۔
جہاں تک منفی پہلوؤں کا تعلق ہے ان کا زیادہ تر تعلق ادیبوں کی آمدورفت، رہائش اور سیکیورٹی کلیئرنس کے قدرے ناخوشگوار طریقہ کار سے ہے جو کوئی نئی بات نہیں کہ ان میں سے کچھ مسائل تو حقیقی ہوتے ہیں اور کچھ کو بعض احباب ’’بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستاں کے لیے‘‘ وزیراعظم کے مشیر خاص عرفان صدیقی صاحب نے اطلاعات کے مطابق اس کانفرنس کے انعقاد میں کلیدی رول ادا کیا ہے لیکن چونکہ ان کے لیے بھی ایسی کسی کانفرنس کا انعقاد ایک اعتبار سے پہلا تجربہ تھا اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ اگلی کانفرنس نہ صرف جلد ہو گی بلکہ اس میں ان پہلوؤں پر خصوصی توجہ دی جائے گی جو کسی نہ کسی وجہ سے اس بار شکایات کا محرک اور موجب بنے۔
اب آتے ہیں اس میلے کے اس حصے کی طرف جس کو مجھے ٹی وی کی معرفت لائیو دیکھنے کا موقع ملا، یہ اس کانفرنس کی اختتامی تقریب کا نصف آخر تھا کہ اس سے قبل عرفان صدیقی صاحب کے علاوہ غالباً کچھ اور لوگ بھی اظہار خیال کر چکے تھے، اس بات کا اندازہ مجھے صدر آزاد کشمیر مسعود خان اور صدر پاکستان ممنون حسین صاحب کی تقاریر سے ہوا۔ پہلی صف کے سامعین میں سے عطاء الحق قاسمی‘ انور شعور اور ڈاکٹر خلیل توقار (ترکی) پہچانے جا سکے کہ ان پر سے کیمرہ نسبتاً آہستگی سے گزر رہا تھا البتہ پیچھے کی صفوں میں بیٹھے ہوئے کئی شناسا چہروں کی جھلک پر ہی گزارا کرنا پڑا۔
مسعود خان وزارت و خارجہ کے سینئر افسر رہے ہیں ان سے کئی بار سرسری ملاقات کا موقع بھی ملا ہے مگر یہاں وہ ایک عمدہ مقرر کے طور پر سامنے آئے ان کے بولنے کا انداز بہت موثر تھا اور ادبی موضوعات کے حوالے سے ان کی گفتگو بہت مربوط اور معنی خیز تھی بالخصوص جس انداز میں انھوں نے اہل قلم کو کشمیر کے موضوع پر لکھنے کی دعوت دی اور اس کا رشتہ ان کے پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ اس انسانی ضمیر سے جوڑا جو مظلوم کو اس کے نام‘ رنگ‘ نسل اور ملک سے ہٹ کر صرف اس کی مظلومیت کے حوالے سے دیکھتے ہیں، انھوں نے بہت اچھے انداز میں عالمی ادب کے ساتھ اس کانفرنس کا رشتہ جوڑا اور بڑے دوستانہ انداز میں تقاضا کیا کہ ہمارا ادیب دنیا بھر کے مظلوم لوگوں کے بارے میں تو خوب جم کر لکھتا ہے مگر مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں پر وہ توجہ نہیں دی جاتی جو اس کا حق ہے۔
سوشل میڈیا پر صدر مملکت ممنون حسین کی عمومی خاموشی پر طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن ادب اور ثقافت کی حد تک وہ جب بھی بولتے ہیں خوب کھل کر اور مزہ لے لے کر بولتے ہیں، انھیں بھائی انور شعور سمیت کئی شاعروں کے اشعار یاد ہیں جنھیں وہ اکثر اپنی گفتگو میں بھی استعمال کرتے ہیں۔میں اس کانفرنس (یا شاید ادیبوں) کے لیے لکھا گیا وہ نغمہ تو نہیں سن سکا جس کی انھوں نے اپنی تقریر میں تعریف کی اور اس کے گلوکار بچوں کو ایوان صدر میں چائے پر مدعو کیا لیکن اس کے شاعر حسن عباس رضا بلاشبہ ہمارے بعد کی نسل کے ایک اہم اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل شاعر ہیں اور مجھے یقین ہے کہ انھوں نے یہ گیت بھی بہت خوش اسلوبی سے لکھا ہو گا اس کی باقاعدہ داد تو گیت سننے کے بعد ہی دی جائے گی مگر توقع کے نمبر اب بھی ان کو حاصل ہیں۔
ہماری زندگیوں میں سے زبان و ادب کا خوب صورت اور تخلیقی و تعمیری استعمال جس تیزی سے کم ہو رہا ہے وہ یقیناً ایک تشویش ناک صورت حال کا مظہر ہے۔ اس طرح کی کانفرنسیں بلاشبہ اس ضمن میں ایک اہم اور موثر رول ادا کر سکتی ہیں مگر اصل مسئلہ ہمارا نصاب‘ طرز تعلیم اور تعلیمی ترجیحات ہیں، میرے خیال میں عرفان صدیقی صاحب کو ایک کانفرنس اس حوالے سے بھی کروانی چاہیے کہ جو نظام تعلیم ادیب سے اس کا قاری اور قاری سے اس کی زبان اور اس کا رسم الخط چھین رہا ہے اس کی اصلاح اور روک تھام کیسے کی جائے کہ ادب صرف ادیب کا ہی نہیں ہم سب کا اجتماعی مسئلہ بھی ہے۔