تحریر: شاہ بانو میر
غیور کشمیری ہونے کے ناطے میں اپنا یہ فرض سمجھتا ہوں کہ آزادی کی یہ شمع ہر سال فرانس میں رہتے ہوئے روشن کروں جب تک کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر کشمیر کو بھارتی جابرانہ تسلط سے آزاد نہیں کروا لیتے٬ کشمیر پے ہونے والا ہر پروگرام ہمیشہ انسانیت کو کشمیر میں روا رکھنے والے بھارتی مظالم کی طرف توجہ مبذول کروانے کیلیۓ کئے جاتے ہیں٬ کشمیر کا پروگرام ہمیشہ کشمیری عوام کا پروگرام ہوتا ہے جس میں کسی سیاست کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا یہ کشمیر کیلئے ایک کشمیری کا ہر سال تحفہ خاص ہوتا ہے٬۔
میرا تعلق کشمیر کے ضلع ڈسٹرکٹ حویلی سے ہے٬
میں نے پنجاب لاء کالج سے وکالت کی ہے تھے٬ والدہ کا تعلق سری نگر سے ہے٬۔
خاندان کی کافی زمینیں کشمیر کے موجودہ دونوں حصّوں میں تھیں ٬ ہمارا آدھا خاندان یہاں اور آدھا وہاں رہتا تھا٬ 1947 میں پارٹیشن کے وقت ہم لوگ اس حصّے کی طرف تھے اس لئے آدھا خاندان مقبوضہ علاقے میں رہ گیا اور آدھا آزاد ٬ داداصاحب یسیٰن ہاشمی صاحب جاگیردار تھے پونچھ کے ان کا شمار شمس العلمائے “”پونچھ “” میں ہوتا تھا ٬۔ بنیادی طور پر خاندان شروع سے سیاست میں موجود رہا ہے٬ میر واعظ عمر فاروق والدہ کی طرف سےماموں اُس وقت جماعتِ اسلامی کشمیر کے بانی صدر تھے ٬۔
پیرس میں کشمیر کیلئے حق کی آواز بزریعہ پروگرام 1985 سے اٹھا رہے ہیں٬
کالج کے زمانے میں متحرک طلباء کا رہنما مانا جاتا تھا٬ اُس وقت بطورِ طالبعلم ر متحرک تھے اور سٹوڈنٹ ونگ کے صدر کی حیثیت سے اس وقت سے جدوجہد جاری و ساری ہے٬ نہ صرف فرانس بلکہ یورپ بھر میں مختلف انداز میںکشمیر کے پروگرام کرنے کا اصل مقصد لوگوں میں بیداری پیدا کرنا ہے٬
اور ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہمارے اپنے لوگ جو کشمیری ہیں وہ بھی اس مسئلے کو ہمہ وقت سوچ میں یاد رکھیں٬ ہر سال اس پروگرام کو زبان نسل سیاست سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف بھارتی مظالم کو اجاگر کرنے کیلئے کیا جاتا ہے٬۔
مسئلہ کشمیر کا معاملہ ساری دنیا جانتی ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کے ظلم و جبر بربریت کا دور دورہ ہے اور تمام لوگ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں
عراق کی جانب فوجیں آئیں سب جانتے ہیں کہ جب بیرونی طاقتوں نے فوجیں بھیجیں تو وہاں معیشت تباہ ہوئی علم و ہنر کے مراکز برباد ہوئے٬ الزام کیمیائی ہتھیاروں کی بازیاب تھی جس میں دنیا نے دیکھا کیسی شرمندگی ہوئی ٬ ہدف صرف ایک شخص تھا جس کو پھانسی دے سی گئی ٬ اسلحہ فروخت کر کے بے گناہ لوگوں کا قتلِ عام کر کے بظاہر جمہوریت لے کر آئے تاریخ گواہ ہے کہ
آج تک قتل و غارت گری سے جمہوریت کبھی کسی ملک میں نہیں آئی ٬ جمہوریت ٹؤ آتی ہے سوچ کے انداز کو تبدیل کرنے سے ٬ غاصبانہ تسلط ذرا اور آگے بڑھا اور افغانستان کے اندر جنگ شروع کر دی گئی ٬ بے گناہوں کو قتل کیا گیا ٬ دنیا کو پتہ ہے کہ وہاں ٹنوں کے حساب سے بارود پھینکا گیا٬
لوگ لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوئے٬۔
شہادتوں کا زخمیوں کا اندازہ لگانا نا ممکن ہے٬ یہ سب گزشتہ دہائیوں کے وہ تحفے ہیں جو صرف مسلمان ممالک کو دیے گئے ٬۔ لیکن ان سب سے پُرانا حساس مسئلہ کشمیر ہے ٬ جس کو اجاگر نہیں کیا جا رہا٬۔ کشمیر ایسا مسئلہ ہے جسے پوری دنیا جانتی ہے اور وہاں بسنے والوں کے مسائل اور تحفظات سے بخوبی واقف ہے مگر افسوس کہ مفاد پرست دنیا اس مسئلے کو حل نہیں کرنا چاہتی ٬ اس لئے کہ دنیا کے ہندوستان کے ساتھ معاشی مفادات وابستہ ہیں٬ وہ اپنے اپنے مفادات کے حصول کیلیۓ مسئلہ کشمیر کو دانستہ طور پے لٹکا کے رکھنا چاہتی ہے٬ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو پوری دنیا کے اندر انتشار کے خاتمے کا حل امن ہے اور یہ دائمی راستہ کشمیر کے حل کے بعد ہر طرف جاتا ہے٬ ماضی میں مسئلہ کشمیر کے اوپر جن ممالک نے حمایت کی ہے٬ٌ۔
ان میں فرانس سر فہرست ہے ٬ اگر سیکیورٹی کونسل کی ریزولوشن کو دیکھا جائے ٬ تو اُس کی 38 نمبر ریزولوشن جو 17 جنوری 1948 کو پیش ہوئی ٬
اس کو پیش کرنے والی حکومتِ بلجئیم ہے٬ اس میں مسئلہ کشمیر پر جو بحث ہوئی اس میں بلجئیم نے اس ایشو کی حمایت کی اس کے بعد18 مئی 1964 سیکیورٹی کونسل میں جو میٹنگ ہوئی جو اسٹیٹمنٹ جاری کی گئی٬ وہ فرانس کی حکومت کی جانب سے کی گئی تھی۔
فرانس کی حکومت نے مسئلہ کشمیر میں کشمیریوں کی حمایت کی ریزولوشن 47 21 اپریل 1948 کو سیکیورٹی کونسل میں انڈیا اور پاکستان میں جو بات چیت ہوئی یہ بلجئیم اور کینیڈا اور چائنہ کولمبیا یونائیٹڈ کنگڈم یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ اس میں شامل تھے ٬ ٌ مسئلہ کشمیر پر کشمیریوں کے حق میں انہوں نے اعلان کیا کہ یہ مسئلہ حل ہو کر کشمیر کو آزاد ہونا چاہیے ٬ اسی طرح اگر دیکھا جائے ٬ تو 1947 سے لے کر آج 2015 تک یہ 68 سال بنتے ہیں٬ تو 68 سال سے کشمیر کے اندر جابرانہ تسلط برقرار ہے ناجائز قبضہ اس بات کی دلیل ہے کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے اور ہندوستان زبردستی اس کو غلام رکھنا چاہتا ہے٬۔
آج کشمیری سوا کروڑ کے لگ بھگ ہیں ٬ جو پوری دنیا کی طرف دیکھتے ہیں
٬ بے شمار سوالات اٹھاتے ہیں٬ اگر اسکاٹ لینڈ کے اندر رائے شماری ہو سکتی ہے٬۔ یونائئٹڈ کنگڈم کے حق میں اور اس کے خلاف ووٹ ڈالے جا سکتے ہیں٬۔
اور وہاں کے رہنے والے لوگ اپنا حق ِ رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں٬
اور یونائیٹڈ کنگڈم کے ساتھ رہنے پر وہاں رائے شماری بطورِ ریفرنڈم ہو سکتا ہے٬ تو مسئلہ کشمیر پے استصوابِ رائے کیلئے کیوں راستے بند ہیں؟
کشمیر کے اندر ہمارا یہ مطالبہ ہے ٬ کہ ہندوستان اپنی ساڑھے سات لاکھ قابض فوج کو فوری طور پے کشمیر سے نکالے ٬ اور کشمیریوں کو آزادانہ حق رائے دہی کا موقعہ دیا جائے٬۔۔
نہ صرف مسلمان کشمیری بلکہ وہاں کے رہائشی سکھ ہندو پنڈت سب کے سب آزاد زندگی گزارنے کے خواہاں ہیں ٬ کشمیر جتنا مسلمان کا ہے اتنا ہی حق وہاں نسل در نسل رہنے والے ہندو پنڈت اور سکھ کا بھی ہے٬ آج وقت آگیا ہے کہ فیصلہ عوامی رائے عامہ کے ذریعہ ہو جائے٬۔ تا کہ کشمیری اپنی مرضی سے فیصلہ کر سکیں کہ وہ کس طریقہ سے اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں٬ قدرت کا قانون ہے کہ ہر انسان جو پیدا ہوتا ہے٬ وہ آزاد پیدا ہوتا ہے٬۔ اور کسی دنیا کی طاقت کو یہ اجازت نہیں ہ وہ انہیں غلام بنا کر رکھے٬ ۔دنیا کے سامنے ایک مثال ماضی کی دوسری بڑی عالمی طاقت”” روس”” کی دینا چاہوں گا ٬ کہ اس میں شامل ریاستوں نے جب آزادی کا نعرہ لگایا ٬۔ تو اس کے کتنے صوبے الگ ممالک کی صورت اختیار کر گئے٬۔ اس وقت دنیا کے کسی ملک نے ان کے خلاف کوئی بیان یا کوئی قدغن نہیں لگائی٬ نہ ہی کسی نے غلامی کا طوق پہنے رہنے پر اصرار کیا٬۔ تو سوا کروڑ مسلمانوں کی آزادی پر پابندی لگانا یہ قرینِ انصاف نہیں٬۔ہم یہ سمجھتے ہیں ٬ کہٌ ریاست ہایۓمتحدہ امریکہ اور برطانیہ یورپ اور دیگر بڑی عالمی طاقتیں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ہندوستان پر مکمل دباؤ ڈالیں
اور اسے اسلحے کی بھاری بھرکم کھیپ بھیجنا بند کریں اور جب تک کشمیر آزاد نہیں ہو جاتا٬ وہاں نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانےو الے مظالم بند نہیں کئے جاتے اس وقت تک ہندوستان کو سلامتی کونسل کا ممبر ہرگز نہ بنایا جائۓ٬ ورنہ ہندوستان کا مکروہ چہرہ ساری دنیا کے سامنے بے نقاب ہو جائے گا٬ کیونکہ ہندوستان دنیا کو یہ باور کروا رہا ہے کہ وہ ایک جمہوری ملک ہے٬ لیکن وہ سوا کروڑ بے گناہ کشمیریوں کو قید و بند کی صعوبتیں اور قتل و غارت اور نوجوانوں کو پابندِ سلاسل کر رہا ہے ہندوستانی فوج کشمیر کے اندر خواتین کے ساتھ زیادتی جیسے مکروہ فعل اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ہندوستان ایک جمہوری روایت کا حامل ملک نہیں بلکہ ایک غیر جمہوری ملک ہے٬۔
پوری دنیا ہندوستان سے یہ سوال پوچھ رہی ہے٬ کہ اگر ہندوستان اگر ایک جمہوری ملک ہے تواس کے اندر بسنے والے سکھوں کو ہندوستانی پاسپورٹ کیوں جاری نہیں کیا جاتا ؟ اور بیرونِ ملک مقیم سکھ قوم کئی کئی مہینوں تک سفارتخانوں کے چکر کیوں لگاتے ہیں؟ مگرانڈین سفارتخانہ پاسپورٹ جاری نہیں کرتا ٬۔یہ وہ تمام محرکات ہیں جو عوام تک رسائی چاہتے ہیں ٬اورمجھے 5 فروری سے زیادہ مؤثر دن کوئی اور نظر نہیں آتا اس لئے ہر سال پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے ٬ جس میں بھاری تعداد میں پاکستانی لوگ شامل ہو کر ہمارے حوصلے اور جزبوں کو نئی روح دیتے ہیں٬ فرانس میں موجود پاکستانی کمیونٹی کا جو رویہ بالخصوص میں نے پرکھا اور جانچاہے٬ یقینا وہ قابل ستائش ہے ٬ میں نے بے شمار ممالک میں کشمیر کے حوالےسے کام کیا٬ جلسے کئے٬ کانفرنسسز کیں٬اور مختلف اداروں کی جانب سے منعقد کردہ پروگرامز میں میں شرکت کی٬ لیکن جس بھرپور انداز میں پاکستانی”” فرانس”” میں کشمیر پروگرام میں جوق در جوق تشریف لاتے ہیں ٬ بِلا تخصیص رنگ ونسل ٬ ذات پات علاقائی تعصب سے پاک لسانی اختلافات اور نظریاتی اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئۓ ہر پروگرام میں میری مدد کی٬ میرے پاس الفاظ نہیں کہ ان کا شکریہ دا کر سکوں ٬ فرانس میں بسنے والی پاکستانی کمینوٹی نے صحیح معنوں میں ملی بیداری اور غیور قوم اعلیٰ اقدار کی مالک قوم ہونے کا ثبوت دیا ٬
میں ذاتی حیثیت میں ان سب کا ممنون و مشکور ہوں اور کشمیری کمیونٹی کی جانب سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں سفیرِ پاکستان اور عوام پاکستان کا مسئلہ کشمیر پر کشمیری کمیونٹی کے ساتھ جو مثبت تعاون جاری ہے ٬ وہ انتہائی قابل تعریف ہے ٬ ایک ہستی کا خاص طور سے ذکر کرنا چاہوں گا٬ جن کی ہر سال موجودگی گویا ہمارے پروگرام کو چار چاند لگا دیتی ہے٬ وہ ہیںۤ سفیرِ محترم غالب اقبال صاحب ان کی کشمیر کیلیۓ عملی کاوشیں قابلِ ستائش ہیں
یہ مسئلہ صرف کشمیری قوم کی حد تک محدود نہیں وہ اپنی موجودگی کے ساتھ پاکستان کی سفارتی جزباتی وابستگی کا اظہار کرنے سے کہیں نہیں چوکتے٬ وہ جانتے ہیں کہ ایک کشمیری پاکستان کو اپنے لئےجزباتی طاقت کا عنوان سمجھتا ہے٬٬۔ وہ سوچتے ہیں کہ جو تگ و دو کشمیری نہتے ہو کر کر رہے ہیں٬ اس سے کہیں گُنا زیادہ جدوجہد اپنے لئے وہ ہر پاکستانی کو کرتے دیکھنا چاہتے ہیں٬ سفیرِ محترم کی تاریخی کاوشوں کی وجہ سے پاکستانی کمیونٹی کا سر فرانس میں فخر سے کہیں گنا بلند ہوا ہے٬ میں یہ سمجھتا ہوں جناب غالب اقبال صاحب نے بڑی روشن اور اعلیٰ روایات قائم کی ہیں٬ ان کے دور کو اپنانا ہر نیا آنے والا اپنے لئے باعث اعزاز سمجھے گا٬۔ اپنے عملے کی کارکردگی کو زمین سے بلند کرتے ہوئے فضاؤں کی بلندیوں تک لے کر جانا بلاشبہ انہی کا خاصہ ہے٬ بہت قابل اور معاملہ فہم انسان ہیں٬۔ میں سمجھتا ہوں کہ کشمیری کمیونٹی جو فرانس میں رہائش پزیر ہے انہیں کسی بڑے ذمہّ دار کی طرح ان کی پروگرام میں شمولیت بہت حوصلہ دیتی ہے٬ انہیں اپنے درمیان پا کرکشمیری کمیونٹی کوبہت حوصلہ اور توانائی ملتا ہے٬۔ ان کی آمد پر کشمیری کمیونٹی سفیرِ محترم کی انتہائی شکر گزار ہے٬۔ امید ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک سفارتخانہ پاکستان
اورٌ عام پاکستانیوں کا بھرپور تعاون ہمیں ہمیشہ طاقتور مضبوط بناتا رہے گا٬۔ اس سال کے بھرپور کامیاب پروگرام کیلیۓ میں اُن سب کا مشکور ہوں جن کی آمد سے خطاب سے دعاؤں سے ہم ایک نئی تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہوئے٬
آپ سب کے ساتھ کشمیر کی آزادی تک جدوجہد جاری ہے گی انشاءاللہ یہ باتیں لکھتے ہوئے نجانے کیوں مجھے لگا کہ فرانس میں مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے کیلیۓ ہم کہہ سکتے ہیں کہ زاہد ہاشمی کشمیر کا عنوان ہیں٬۔
تحریر: شاہ بانو میر