پیرس (واقع نگار) فرانس میں پاکستان اور عربی کمیونٹی کی ٹریول ایجنسیوں کو ٹیکا لگانے والا سری لنکن فراڈیا مہندرا واسا قانون کے شکنجے میں آ گیا، گذشتہ تین سال میں چھ کے قریب پاکستان ٹریول ایجنسیوں سے ادھار ٹکٹ بنوا کر غائب ہوجانے والا آخر ِکار قانونی گرفت میں آگیا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستانی اور عربی ٹریول ایجنسیوں سے ادھار ٹکٹ بنوا کر پیسے نہ دینے والے تین بڑے فراڈیئے سٹار ٹریولز کا مہندرہ واسا، سیال لنکا ٹریولز کا گامیکا میگل، بتاما اور ایم سی وویاج کا دیکورے گذشتہ تین سال سے پیرس کی مارکیٹ میں سرگرم عمل تھے جنہوں نے سب سے پہلے ایکسپلور وویاج کوپچاس ہزارو یورو اور فلائی ہوم کو پونے دولاکھ یورو کا جھٹکا دیکر سری لنکا اور افریقہ فرار ہوگئے یوں دونوں ٹریول ایجنسیاں سری لنکن اور افریقی فراڈیوں کی نظر ہوکر بند ہوگئیں۔
کچھ عرصہ بعد ان فراڈیوں نے ڈپلومیٹ وویاج اور میدی وویاج سے کاروبار شرو ع کیا ۔ابتدا میں روزانہ چیک سے پے منٹ کرکے ٹکٹ بنواتے رہے، آخر میں ان دونوں پاکستانی ٹریول ایجنسیوں کوچیکوں سے پے منٹ کرکے تقریباً سوا لاکھ یورو کا ٹیکا لگا کر غائب ہوگئے ۔ٹکٹوں کے فراڈ کے خلاف ڈپلومیٹ وویاج کے مالک نے قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا تو سٹار انٹرنیشنل ٹریولز کے مالک مہندرہ واسا کے خلاف تفتیش کا عمل شروع ہوا۔
ڈپلومیٹ وویاج کے مالک کو اس بات کا کریڈ ٹ جاتا ہے کہ انکی ایجنسی تو فراڈیئے کی نظر ہوگئی لیکن انہوں نے فراڈیئے کا پیچھا نہیں چھوڑا اور ایجنسی کو قانونی طریقے سے بند کرنے کیلئے انتظار کیا اور قانونی کی مدد لی۔اگر باقی چاروں پاکستانی ٹریول ایجنٹس بھی ان فراڈیوں کے خلاف قانون کی مدد لیتے اور کاروبار بند کرنے سے قبل فراڈیوں کے خلاف آواز اٹھاتے تو تو یقینا پاکستانی اورعربی کاروباری افراد کو مالی و اخلاقی نقصان پہنچانے والے تینوں بڑے فراڈیئے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہوتے۔
ڈپلومیٹ وویاج کی درخواست پر مہندرہ واسا نامی فراڈیئے کے خلاف جونہی تحقیقات کا آغاز ہوا اس نے گارڈی نارڈ کے سامنے واقع ایجنسی کو بندکرکے دوسرے نام سے کا م شروع کردیالیکن اسکے خلاف تحقیقات کا عمل جاری رہا۔حال ہی میں اسکی ایجنسی کو سیل کرنے کی کاروائی شروع ہوئی ہے اور امید کی جارہی ہے کہ یہ فراڈیا اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے۔یاد رہے کہ ابھی دو بڑے سری لنکن اور افریقی فراڈئیے پیرس کے علاقے گارڈی نارڈ اور بیل ویل میں سرگرم ہیں اور اب تک وہ ایک درجن کے قریب فرنچ،عربی اور پاکستانی ٹریول ایجنسیوں سے چیکوں اور بینک ٹرانسفرکے ذریعے فراڈکرکے ان کا کاروبار بند کروایا چکے ہیں اور قانون کی پکڑ سے باہر ہیں۔شائد اسکی وجہ یہ ہے کہ اب تک کسی بھی متاثرہ ایجنسی نے ان کے خلاف قانون سے مدد نہیں لی۔
متاثرہ ٹریول ایجنٹس کا کہنا ہے کہ جب کسی ٹریول ایجنسی کو ایک ڈیڑھ لاکھ کا مالی نقصان کسی ایک کمپنی سے پہنچتا ہے تو پھر اس کا کام جاری رکھنا ناممکن ہوجاتا ہے کیونکہ باقی ایجنسیاں بھی ٹکٹوںکے پیسے دینے میں ٹال مٹول کرنے لگتی ہیں یوں ماہانہ بل کی ادائیگی کیلئے رقم نہیں ہوتی یوں کاروبار بند ہو جاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ فراڈیوں کے خلاف کاروائی کی جائے مگر اس کام کیلئے کم از کم ایک سال کا وقت درکارہوتا ہے تب تک ایجنسی کے ذمے بل کی پے منٹ کہا ں سے کی جائے۔
ٹریولز ایجنسی کے کاروبار میں بچت نہیں ہے اسی لئے کنسٹریکشن (باتیماں) کے کاروبار ی دوست احباب سے ادھار لیکر ایجنسیوں کے ماہانہ بل دئیے جاتے ہیں اس لئے قانونی کاروائی کا راستہ صرف وہی ٹریول ایجنٹ اپنا سکتا ہے جو ایجنسی کا خسارہ برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ وکیل کوبھاری فیس اورکام ختم کے باوجود ایجنسی کا کرایہ وغیرہ بھی ادا کرتا رہے۔
عدالتی فیصلے تک انتظار کرنا اور خرچے دینا آسان نہیں ہوتا جب مالی نقصان ہوتا ہے تومارکیٹ میں یہ خبر پھیلتی ہے کہ فلاں ایجنسی پے منٹ نہیں کر سکی اور اس کا ٹکٹنگ سسٹم بند ہو گیا ہے اس طرح کی خبروں سے ایجنسی کے مالکان کی ساکھ خراب ہوجاتی ہے۔جن لوگوں سے پیسے لینے ہوتے ہیں وہ بھی ایسی خبروں کے بعد ٹالنا شروع کر دیتے ہیں یوں نان پے منٹ کی وجہ سے ایجنسی بند ہوجاتی ہے ۔جب کاروباری افراد کو مالی نقصان ہوتا ہے تو وہ کاروبار بند کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں یوں فراڈیئے بچ جاتے ہیں۔