تحریر: ممتاز ملک۔ پیرس
یوں تو اٹھارھویں صدی میں فرانس دنیا کا سب سے مہذب ، متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا۔ تہذیب و اخلاقیات ، تعلیم ، حقوق انسانی ، سیاسیات ، غرضیکہ ہر موضوع پر اس کے ممتاز مفکرین اور ادیبوں نے دنیا میں عروج حاصل کیا ۔ لیکن مالی بے ضابطگیوں اور بڑھتے ہوئے شاہی من مانی کے دستور نے اس زمانے کے انہیں باکمال لکھاریوں اور مفکرین کے ذریعےعوام کے ذہنوں میں انقلاب کی راہ کو ہموار کرنا شروع کر دیا ۔ 1789 میں “خزانہ خالی ہے اور اسے بھرنے کے لیئے عوام مذید قربانیاں دیں “کے جیسے بیانات نے جیسے جلتی پر تیل کا کام کیا
ہے کہ اس دوران 14 جولائی 1789ء کا وہ واقعہ بھی پیش آیا جس میں اہل پیرس نے باستیل کے جیل خانے کو منہدم کردیا۔ نیشنل اسمبلی کے انقلاب انگیز مشیروں بالخصوص بادشاہ کے بھائیوں اور ملکہ نے بادشاہ کو ملک سے بھاگنے کی ترغیب دی ۔ بادشاہ اور ملکہ کو پکڑ کر پیرس واپس لایا گیا۔ یہ واقعہ 20۔25 جون 1791ء کو پیش آیا۔ لوئی کی گرفتاری سے ملک کے طول و عرض میں سنسنی پھیل گئی اور اس طرح حکومت وقت کا رہا سہا اقتدار بھی ختم ہوگیا ستمبر 1791ء تک بادشاہ نظر بند رہا۔ اس کے بعد نئے دستور کا نفاذ ہوا 20 جون اور 10 اگست 1792ء کو عوام نے شاہی محل پر حملہ کردیا۔ اور بادشاہ اور ملکہ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ بادشاہ اور ملکہ کو پھر قید کر لیاگیا۔ 21 جنوری 1793ء کو شاہ فرانس کو جبکہ 16 اکتوبر 1793ء کو ملکہ فرانس کو بھی عوامی عدالتی کاروائی کے بعد موت کی سزا دےدی گئی۔ 10 نومبر 1793ء کو خدائی عبادت کے خلاف قانون پاس ہوا۔ اس کے بعدفرانس میں کسی کی گردن محفوظ نہ تھی۔ ۔ 94۔1793 کے درمیان ہزاروں افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ آخر کار 8 جون1795ء کوفرانس کے ولی عہد کو بھی قتل کردیا گیا۔ یوں صدیوں کی بادشاہت اپنے انجام کو پہنچی ۔ مئی 1804ء میں نپولین بونا پارٹ برسر اقتدار آیا اور فرانس کی تاریخ کا نیا باب شروع ہوا۔
دنیا بھر کی خواتین کی طرح فرانس کی خواتین کو اپنے ماں بیوی اور بیٹی کے رول کو کبھی کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا گیا تھااس لیئے یہاں بھی خواتین نے بھی اپنے حقوق کے لیئے بیسویں صدی میں بے مثال جدو جہد کی ۔ یوں تو فرانس میں شاہی ادارے نےصدیوں لوگوں پر حکومت کی ۔ لیکن وقت کےساتھ ساتھ انفرادی اور اجتماعی حقوق کی پامالی اور ایوان شاہی کی بڑھتی ہوئی من مانیوں کا زور جب ناقابل برداشت ہونے لگ گیا تو عوامی غصے نے بلآخر اسے انقلاب فرانس پر منتج کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ اور شاہ کو لوگوں کے غضب کا اندازہ لگاتے ہوئے اپنے اختیارات کا دامن سمیٹ کر عوام کو ملکی فیصلوں میں شامل کرنا ہی پڑا۔
انقلاب فرانس ابھی عوامی حقوق کی ادائیگی کا نقطہ آغازتھا ابھی اور بہت سے اختیارات منشور کا حصہ بنائے جانے تھے۔ انقلاب کے دوران خواتین کو بلکل ہی غیر فعال اور ناکارہ سمجھا گیا۔ اس کے باوجود کہ اس وقت 1791 کا تیار کردہ آئین جسے کون دوغسے ” کا نام دیا گیا، کے مطابق خواتین کے ووٹ کے حق کی شق موجود تھی اپیل کے باوجود بھی انہیں یہ حق نہیں دیا گیا۔ جو کہ انہیں سیاسی شہریت دینے سے انکاری ہونے کی بات تھی۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائیل میں ووٹ کا حق صرف مالی حیثت کی وجہ سے زمین کے مالکان یا اس کے جائیدا کے وارثان کو ہی دیا گیا۔
خواتین کو علماء پر غیر ضروری انحصار اور مذہبی اعتقاد رکھنے اور فیصلہ کر نے میں جلد بازی کی وجہ سے اس حق سے محروم کیا گیااسی سلسلے میں (1882 ) میں فرانسسیسی لیگ اور فرانسسیسی یونین کے “SUFFRAGETTETS KI ” سُفغاژیٹ کی “”OLYMPE dE GOUGES ” اولامپ دو گوز “خواتین کے حقوق اور شہری اعلامیئے ” (1791)(1905)اور کئی اور تنظیموں نے بڑا کردار ادا کیا ۔اور مذید کئ مراحل حقوق کے حصول میں پیش پیش رہے۔ لیکن فرانس کی خواتین کی قسمت کے ااس فیصلے میں سب سے زیادہ روشن اور تاریخ ساز دن اس خبر کیساتھ شروع ہوا جب 1935ء میں Juliot Curie جیولیٹ کیوری نے دنیا کا سب سے بڑا نوبل ایوارڈ کیمسٹری جیسے مشکل شعبے میں حاصل کیا۔ یہ ایوارڈ حاصل کر کے فرانسیسی خواتین نے دنیا کو فرانس کی خواتین کی صلاحیتیں ماننے پر مجبور کر ہی دیا۔ فرانسیسی مزاحمتی ہیرو پی ایغ بروسولیٹ کی بیوہ گلبرٹ بروسولیٹ کے بےمثال کردار نے اس جدو جہد کو بلآخر بیلٹ بکس تک پہنچا ہی دیا۔ اس کامیابی نے خواتین کے ووٹ کے حق کی بحث اور ضرورت کو عروج پر پہنچا دیا اس کے باجود اس سفر کو منزل تک پہنچنے میں مزید 10 سال لگ گئے۔
1944 ء 21 اپریل میں جنرل چارلس ڈیگال نے ایک تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے ایک حکم جاری کیا جس کے تحت فرانس میں خواتین کے لیئے ووٹ کے حق کا اعلان کر دیا گیا ۔اور اس بات کو قانونی شکل دیدی گئ کہ خواتین نہ صرف ووٹ میں مردوں کے برابر حق رکھتی ہیں بلکہ خواتین کو ہر شعبے میں مردوں کے برابر مساوی حقوق کی ضمانت دیدی گئ۔ یوں اگلے سال 1945 ء 21اکتوبر بمیں خواتین نے پہلے بار اپنے حق رائے دہی کو استعمال کیا ۔ یہ ایک ایسا قدم تھا جس نے خواتین میں اپنی اہمیت اور وقار کے احساس کو اجاگر کیا ،اور انہوں نے ایک نئے جذبے کے ساتھ فرانس کی ترقی مین کردار ادا کرنا شروع کیا ، سچ یہ ہی ہے کہ جب آپ کی صلاحتیوں کا اعتراف کیا جاتا ہے تو آپ میں اپنے کام کو مذید نکھارنے کو آگے لیجانے کی نہ صرف خواہش پیدا ہوتی ہے بلکہ کچھ کر گزرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔
تحریر: ممتازملک۔ پیرس